Fazl Tabish

فضل تابش

فضل تابش کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا

    ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا اندھیرا جسم میں ناخون ہوتا یہ سورج کیوں بھٹکتا پھر رہا ہے مرے اندر اتر جاتا تو سوتا ہر اک شے خون میں ڈوبی ہوئی ہے کوئی اس طرح سے پیدا نہ ہوتا بس اب اقرار کو اوڑھو بچھاؤ نہ ہوتے خوار جو انکار ہوتا صلیبوں میں ٹنگے بھی آدمی ہیں اگر ان کو بھی خود سے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں

    میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں ہے اور کوئی وہاں پر کہ میں ہی تنہا ہوں تمہیں خبر ہے گھروندوں سے کھیلتے بچو میں تم میں اپنا گیا وقت دیکھ لیتا ہوں تم اس کنارے کھڑے ہو بلا رہے ہو مجھے یقیں کرو کہ میں اس اور سے ہی آیا ہوں وہ اپنے گاؤں سے کل ہی تو شہر آیا ہے وہ بات بات پہ ...

    مزید پڑھیے

    ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے

    ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے خواہش خواہش بکنے والا ملبوساتی کیڑا ہے اس کے چاروں اور پھریں کیا اس کے اندر اتریں کیا اپنے ہی اندر اترنے کا کیا کچھ کم پچھتاوا ہے سناٹے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر مر جاؤ چیخوں کا ظالم دروازہ قد سے کافی اونچا ہے گلیوں گلیوں خاک اڑا لی ...

    مزید پڑھیے

    راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا

    راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا سایے کے طور لیٹ کے چلنا سکھا دیا کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا وہ کل شراب پی کے بھی سنجیدہ ہی رہا اس احتیاط نے اسے مجھ سے چھڑا دیا جب کوئی بھی اتر نہ سکا میرے جسم میں سب حال میں نے صرف اسی کو سنا ...

    مزید پڑھیے

    ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا

    ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا دھوئیں کو جیتنے والوں کا سورج دوسرا ہوگا اگر مر کر پھر اٹھنا ہے تو مرنے کی خوشی کیا ہے بدن کھونے کا غم جینے کی خوشیوں سے سوا ہوگا سنا ہے یہ زمیں اڑتی پھرے گی روئی کی صورت تماشا کرنے والا ہی تماشا دیکھتا ہوگا میں چڑیوں کو الجھتے دیکھ کر ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    سفر

    رات جب ہر چیز کو چادر اڑھا دے ڈھانپ لے کالے پروں میں آگ لپٹوں سی زبانیں اژدھے جب اپنے اندر بند کر لیں تب اسی کالے سمے میں تم گھروں کی قبر سے باہر نکلنا اور بستی کے کنارے خواب میں خاموش بہتے آدمی سے آ کے مجھ کو ڈھونڈھنا میں وہیں تم سب سے کچھ آگے ملوں گا اور اندھیرا سا تمہارے آگے آگے ...

    مزید پڑھیے

    ایک نظم

    سنو ہم درختوں سے پھل توڑتے وقت ان کے لیے ماتمی دھن بجاتے نہیں سنو پیار کے قہقہوں اور بوسوں کے معصوم لمحوں میں ہم آنسوؤں کے دیوں کو جلاتے نہیں اور تم لمس بوسوں سلگتی ہوئی گرم سانسوں میں آنسو ملانے پہ کیوں تل گئی ہو سنو آنسوؤں کا مقدر تمہارا مقدر نہیں تم ابھی موسموں سے پرے اپنی ...

    مزید پڑھیے

    موت ماں کی طرح ساتھ ہے

    اس گلی کا سرا بھی کہیں کی سڑک پر ہی اگلے گا تاریک منہ پھاڑتی اس گلی میں اتر جاؤ گہرے اتر جاؤ بدبو دماغوں میں بھرتی ہے بھر جائے غم مت کرو پیپ خون اور معدے کی سب گندگی صاف کپڑوں پہ آتی ہے آ جائے غم مت کرو اس گلی میں اڑ کر بھٹکنا ہے ٹکراتے پھرنا ہے کھو جاؤ ٹکراؤ غم مت کرو موت ماں کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    آ کے ہو جا بے لباس

    دن جو کہتا ہے مت سن دھوپ کاندھوں پر اٹھانے سے بھی ہٹ جا ڈھیر سے غصے کو اپنی مٹھیوں میں بھر کے لے آ شہر بھر کے منہ پہ مل دے ہر طرف کالک ہی کالک پوت دے دیوار و در پر دن کے سب آثار ڈھا دے نوچ لے آکاش سے جلتے ہوئے خورشید کو دھوپ کی چادر کو کر دے تار تار اور پھر گھر آ کے ہو جا بے لباس بند ہو ...

    مزید پڑھیے

    جب جنگل بستی میں آیا

    میرے چاروں اور مکانوں سے آتی آوازیں سڑکوں پر لہراتی ان گنت موٹر کاریں اسکولوں سے چھنتی زندہ ہنستی بھن بھن لیمپ پوسٹ سے بہتی جگمگ دھارا ہنستے لوگوں سے بھرپور دوکانیں سڑکیں اخباروں میں چھپنے والی اونچے انسانوں کی باتیں جو برسوں میں پورے ہوں گے ایسے منصوبوں کی باتیں کہتی ہیں ہم ...

    مزید پڑھیے

تمام