Fazl Tabish

فضل تابش

فضل تابش کی غزل

    ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا

    ہر اک دروازہ مجھ پر بند ہوتا اندھیرا جسم میں ناخون ہوتا یہ سورج کیوں بھٹکتا پھر رہا ہے مرے اندر اتر جاتا تو سوتا ہر اک شے خون میں ڈوبی ہوئی ہے کوئی اس طرح سے پیدا نہ ہوتا بس اب اقرار کو اوڑھو بچھاؤ نہ ہوتے خوار جو انکار ہوتا صلیبوں میں ٹنگے بھی آدمی ہیں اگر ان کو بھی خود سے ...

    مزید پڑھیے

    میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں

    میں اس کے خواب میں کب جا کے دیکھ پایا ہوں ہے اور کوئی وہاں پر کہ میں ہی تنہا ہوں تمہیں خبر ہے گھروندوں سے کھیلتے بچو میں تم میں اپنا گیا وقت دیکھ لیتا ہوں تم اس کنارے کھڑے ہو بلا رہے ہو مجھے یقیں کرو کہ میں اس اور سے ہی آیا ہوں وہ اپنے گاؤں سے کل ہی تو شہر آیا ہے وہ بات بات پہ ...

    مزید پڑھیے

    ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے

    ان آنکھوں میں بن بولے بھی مادر زاد تقاضا ہے خواہش خواہش بکنے والا ملبوساتی کیڑا ہے اس کے چاروں اور پھریں کیا اس کے اندر اتریں کیا اپنے ہی اندر اترنے کا کیا کچھ کم پچھتاوا ہے سناٹے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر مر جاؤ چیخوں کا ظالم دروازہ قد سے کافی اونچا ہے گلیوں گلیوں خاک اڑا لی ...

    مزید پڑھیے

    راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا

    راتوں کے خوف دن کی اداسی نے کیا دیا سایے کے طور لیٹ کے چلنا سکھا دیا کمرے میں آ کے بیٹھ گئی دھوپ میز پر بچوں نے کھلکھلا کے مجھے بھی جگا دیا وہ کل شراب پی کے بھی سنجیدہ ہی رہا اس احتیاط نے اسے مجھ سے چھڑا دیا جب کوئی بھی اتر نہ سکا میرے جسم میں سب حال میں نے صرف اسی کو سنا ...

    مزید پڑھیے

    ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا

    ملوں کے شہر میں گھٹتا ہوا دن سوچتا ہوگا دھوئیں کو جیتنے والوں کا سورج دوسرا ہوگا اگر مر کر پھر اٹھنا ہے تو مرنے کی خوشی کیا ہے بدن کھونے کا غم جینے کی خوشیوں سے سوا ہوگا سنا ہے یہ زمیں اڑتی پھرے گی روئی کی صورت تماشا کرنے والا ہی تماشا دیکھتا ہوگا میں چڑیوں کو الجھتے دیکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    جن خوابوں سے نیند اڑ جائے ایسے خواب سجائے کون

    جن خوابوں سے نیند اڑ جائے ایسے خواب سجائے کون اک پل جھوٹی تسکیں پا کر ساری رات گنوائے کون یہ تنہائی یہ سناٹا دل کو مگر سمجھائے کون اتنی بھیانک رات میں آخر ملنے والا آئے کون سنتے ہیں کہ ان راہوں میں مجنوں اور فرہاد لٹے لیکن اب آدھے رستے سے لوٹ کے واپس جائے کون سنتے سمجھتے ہوں ...

    مزید پڑھیے

    اسے معلوم ہے میں سرپھرا ہوں

    اسے معلوم ہے میں سرپھرا ہوں مگر خوش ہے کہ اس کو چاہتا ہوں یہ بستی کب درندوں سے تھی خالی میں پھر بھی ٹھیک لوگوں میں رہا ہوں جو چاہے وہ مجھے بے دام لے لے خریداروں کے ہاتھوں کم بکا ہوں تری چاہت بہانہ ہے یقیں کر بہ ہر صورت میں خود کو چاہتا ہوں ذرا سن بے نیاز لمس سن لے میں تجھ کو چھو ...

    مزید پڑھیے

    خواہشوں کے حصار سے نکلو

    خواہشوں کے حصار سے نکلو جلتی سڑکوں پہ ننگے پاؤں پھرو رات کو پھر نگل گیا سورج شام تک پھر ادھر ادھر بھٹکو شرم پیشانیوں پہ بیٹھی ہے گھر سے نکلو تو سر جھکائے رہو مانگنے سے ہوا ہے وہ خود سر کچھ دنوں کچھ نہ مانگ کر دیکھو جس سے ملتے ہو کام ہوتا ہے بے غرض بھی کبھی کسی سے ملو در بہ در ...

    مزید پڑھیے

    یہ سناٹا بہت مہنگا پڑے گا

    یہ سناٹا بہت مہنگا پڑے گا اسے بھی پھوٹ کر رونا پڑے گا وہی دو چار چہرے اجنبی سے انہیں کو پھر سے دہرانا پڑے گا کوئی گھر سے نکلتا ہی نہیں ہے ہوا کو تھک کے سو جانا پڑے گا یہاں سورج بھی کالا پڑ گیا ہے کہیں سے دن بھی منگوانا پڑے گا وہ اچھے تھے جو پہلے مر گئے ہیں ہمیں اب اور پچھتانا ...

    مزید پڑھیے

    رشتہ کھجیایا ہوا کتا ہے

    رشتہ کھجیایا ہوا کتا ہے ایک کونے میں پٹک رکھا ہے رات کو خواب بہت دیکھے ہیں آج غم کل سے ذرا ہلکا ہے میں اسے یوں ہی بچا دیتا ہوں وہ نشانے پہ کھنچا بیٹھا ہے جب بھی چوکو گے پھسل جائے گا ہاں وہ گرنے پہ تلا بیٹھا ہے رات سورج کو نگل ہی لے گی پھر بھی دن اپنی جگہ بڑھیا ہے کون سے جلتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2