Fazil Jamili

فاضل جمیلی

کراچی میں مقیم اردو کے معروف صحافی اور شاعر

Prominent poet and journalist who has also been associated with television channel.

فاضل جمیلی کی غزل

    اپنے ہونے کے جو آثار بنانے ہیں مجھے

    اپنے ہونے کے جو آثار بنانے ہیں مجھے جانے کتنے در و دیوار بنانے ہیں مجھے خود کو رکھنا بھی نہیں جنس گراں کی صورت بکنے والوں کے بھی معیار بنانے ہیں مجھے تیرے قدموں میں بچھانے ہیں زمینی رستے اور اپنے لیے کہسار بنانے ہیں مجھے اپنے جیسا کوئی دشمن بھی ضروری ہے بہت تیرے جیسے بھی کئی ...

    مزید پڑھیے

    مثال شمع جلا ہوں دھواں سا بکھرا ہوں

    مثال شمع جلا ہوں دھواں سا بکھرا ہوں میں انتظار کی ہر کیفیت سے گزرا ہوں سب اپنے اپنے دیوں کے اسیر پائے گئے میں چاند بن کے کئی آنگنوں میں اترا ہوں کچھ اور بڑھ گئی بارش میں بے بسی اپنی نہ بام سے نہ کسی کی گلی سے گزرا ہوں پکارتی تھی مجھے ساحلوں کی خاموشی میں ڈوب ڈوب کے جو بار بار ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کا بھی آخر کوئی امکان بناتے

    ملنے کا بھی آخر کوئی امکان بناتے مشکل تھی اگر کوئی تو آسان بناتے رکھتے کہیں کھڑکی کہیں گلدان بناتے دیوار جہاں ہے وہاں دالان بناتے تھوڑی ہے بہت ایک مسافت کو یہ دنیا کچھ اور سفر کا سر و سامان بناتے کرتے کہیں احساس کے پھولوں کی نمائش خوابوں سے نکلتے کوئی وجدان بناتے تصویر ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں

    کہیں سے نیلے کہیں سے کالے پڑے ہوئے ہیں ہمارے پیروں میں کتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں کہیں تو جھکنا پڑے گا نان جویں کی خاطر نہ جانے کس کے کہاں نوالے پڑے ہوئے ہیں وہ خوش بدن جس گلی سے گزرا تھا اس گلی میں ہم آج بھی اپنا دل سنبھالے پڑے ہوئے ہیں ہماری خاطر بھی فاتحہ ہو برائے بخشش ہم آپ ...

    مزید پڑھیے

    مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا

    مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا میں اک حصار تھا تنہائیوں نے توڑ دیا بہم جو محفل اغیار میں رہے تھے کبھی یہ سلسلہ بھی شناسائیوں نے توڑ دیا بس ایک ربط نشانی تھا اپنے پرکھوں کی اسے بھی آج مرے بھائیوں نے توڑ دیا تو بے خبر ہے مگر نیند سے بھری لڑکی مرا بدن تری انگڑائیوں نے توڑ ...

    مزید پڑھیے

    خمار شب میں ترا نام لب پہ آیا کیوں

    خمار شب میں ترا نام لب پہ آیا کیوں نشے میں اور بھی تھے میں ہی لڑکھڑایا کیوں میں اپنے شہر کی ہر رہ گزر سے پوچھتا ہوں پڑا ہوا ہے یہیں وحشتوں کا سایا کیوں کوئی تو درد ہے ایسا جو کھینچتا ہے اسے مرے ہی دل کی طرف لوٹ کر وہ آیا کیوں کسی نگاہ کا میں حسن انتخاب نہ تھا تو زندگی نے مجھے ہی ...

    مزید پڑھیے

    سفید پوشیٔ دل کا بھرم بھی رکھنا ہے

    سفید پوشیٔ دل کا بھرم بھی رکھنا ہے تری خوشی کے لیے تیرا غم بھی رکھنا ہے دل و نظر میں ہزار اختلاف ہوں لیکن جو عشق ہے تو پھر ان کو بہم بھی رکھنا ہے بچھڑنے ملنے کے معنی جدا جدا کیوں ہیں ہر ایک بار جب آنکھوں کو نم بھی رکھنا ہے حسین ہے تو اسے اپنی بات رکھنے کو کرم کے ساتھ روا کچھ ستم ...

    مزید پڑھیے

    داستانوں میں ملے تھے داستاں رہ جائیں گے

    داستانوں میں ملے تھے داستاں رہ جائیں گے عمر بوڑھی ہو تو ہو ہم نوجواں رہ جائیں گے شام ہوتے ہی گھروں کو لوٹ جانا ہے ہمیں ساحلوں پر صرف قدموں کے نشاں رہ جائیں گے ہم کسی کے دل میں رہنا چاہتے تھے اس طرح جس طرح اب گفتگو کے درمیاں رہ جائیں گے خواب کو ہر خواب کی تعبیر ملتی ہے کہاں کچھ ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اداس کر گئے ہو خوش رہو

    مجھے اداس کر گئے ہو خوش رہو مرے مزاج پر گئے ہو خوش رہو مرے لیے نہ رک سکے تو کیا ہوا جہاں کہیں ٹھہر گئے ہو خوش رہو خوشی ہوئی ہے آج تم کو دیکھ کر بہت نکھر سنور گئے ہو خوش رہو اداس ہو کسی کی بے وفائی پر وفا کہیں تو کر گئے ہو خوش رہو گلی میں اور لوگ بھی تھے آشنا ہمیں سلام کر گئے ہو ...

    مزید پڑھیے

    خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا

    خزاں کا رنگ درختوں پہ آ کے بیٹھ گیا میں تلملا کے اٹھا پھڑپھڑا کے بیٹھ گیا کسی نے جام اچھالا بنام شام الم کوئی ملال کی وحشت چھپا کے بیٹھ گیا ملا نہ جب کوئی محفل میں ہم نشینی کو میں اک خیال کے پہلو میں جا کے بیٹھ گیا پرانے یار بھی آپس میں اب نہیں ملتے نہ جانے کون کہاں دل لگا کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2