Faza Ibn e Faizi

فضا ابن فیضی

بے مثل شاعری کے لئے مشہور

Known for his inimitable expression

فضا ابن فیضی کی غزل

    اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا

    اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا زندہ جو بچ گئے ہیں سہیں نفرتوں کے دکھ اپنا گلا تو پیار کے خنجر سے کٹ گیا موسم بھی منفعل ہے بہت کیا بھروں اڑان رشتہ ہواؤں کا مرے شہ پر سے کٹ گیا پلکوں پر اپنی کون مجھے اب سجائے گا میں ہوں وہ رنگ جو ترے پیکر سے کٹ ...

    مزید پڑھیے

    لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر

    لہو ہماری جبیں کا کسی کے چہرے پر یہ روپ رس بھی سہی زندگی کے چہرے پر ابھی یہ زخم مسرت ہے ناشگفتہ سا چھڑک دو میرے کچھ آنسو ہنسی کے چہرے پر نوا کی گرد ہوں مجھ کو سمیٹ کر لے جا بکھر نہ جاؤں کہیں خامشی کے چہرے پر اس انقلاب پہ کس کی نظر گئی ہوگی غموں کی دھوپ کھلی ہے خوشی کے چہرے ...

    مزید پڑھیے

    کھلا نہ مجھ سے طبیعت کا تھا بہت گہرا

    کھلا نہ مجھ سے طبیعت کا تھا بہت گہرا ہزار اس سے رہا رابطہ بہت گہرا بس اس قدر کہ یہ ہجرت کی عمر کٹ جائے نہ مجھ غریب سے رکھ سلسلہ بہت گہرا سب اپنے آئینے اس نے مجھی کو سونپ دیے اسے شکست کا احساس تھا بہت گہرا مجھے طلسم سمجھتا تھا وہ سرابوں کا بڑھا جو آگے سمندر ملا بہت گہرا شدید ...

    مزید پڑھیے

    سراب جسم کو صحرائے جاں میں رکھ دینا

    سراب جسم کو صحرائے جاں میں رکھ دینا ذرا سی دھوپ بھی اس سائباں میں رکھ دینا تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا شکست کھائے ہوئے حوصلوں کا لشکر ہوں اٹھا کے مجھ کو صف دشمناں میں رکھ دینا جدید نسلوں کی خاطر یہ ورثہ کافی ہے مرے یقیں کو حصار گماں ...

    مزید پڑھیے

    میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے

    میں خود ہوں نقد مگر سو ادھار سر پر ہے عجب وبال‌ غم روزگار سر پر ہے گماں ہے سب کو کہ ہوں آسماں اٹھائے ہوئے سفر سفر وہ قدم کا غبار سر پر ہے ہوائے جاں کا تقاضا کہ رہیے گھر سے دور کہ ہیں جو گھر میں بیاباں ہزار سر پر ہے سبک نہ سمجھو مجھے پشت ٹوٹ جائے گی میں ایک پل سہی صدیوں کا بار سر ...

    مزید پڑھیے

    اب شہر میں کہاں رہے وہ با وقار لوگ

    اب شہر میں کہاں رہے وہ با وقار لوگ مل کر خود اپنے آپ سے ہیں شرمسار لوگ ہاتھوں میں وقت کے تو کوئی سنگ بھی نہ تھا کیوں ٹوٹ کر بکھر گئے آئینہ وار لوگ اپنے دکھوں پہ طنز کوئی کھیل تو نہ تھا زخموں کو پھول کہہ گئے ہم وضع دار لوگ بیٹھے ہیں رنگ رنگ اجالے تراشنے رکھ کر لہو کی شمع سر رہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو

    نہ دامنوں میں یہاں خاک رہ گزر باندھو مثال نکہت گل محمل سفر باندھو اس آئنہ میں کوئی عکس یوں نہ ابھرے گا نظر سے سلسلۂ دانش نظر باندھو جو صاحبان بصیرت تھے بے لباس ہوئے فضیلتوں کی یہ دستار کس کے سر باندھو سفیر جاں ہوں حصار بدن میں کیا ٹھہروں چمن پرستو نہ خوشبو کے بال و پر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4