Faza Ibn e Faizi

فضا ابن فیضی

بے مثل شاعری کے لئے مشہور

Known for his inimitable expression

فضا ابن فیضی کی غزل

    پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا

    پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا ایک دو جست میں دیوار شجر سے ...

    مزید پڑھیے

    آہ کو باد صبا درد کو خوشبو لکھنا

    آہ کو باد صبا درد کو خوشبو لکھنا ہے بجا زخم بدن کو گل خود رو لکھنا درد بھیگی ہوئی راتوں میں چمک اٹھا ہے ہم کو لکھنا ہے تو برسات کا جگنو لکھنا خواب ٹکرا کے حقائق سے ہوئے صد پارہ اب انہیں آنکھ سے ڈھلکے ہوئے آنسو لکھنا تو نے سلطانیٔ جمہور بدل دیں قدریں آج فرہاد کو مشکل نہیں خسرو ...

    مزید پڑھیے

    جرأت اظہار سے روکے گی کیا

    جرأت اظہار سے روکے گی کیا مصلحت میرا قلم چھینے گی کیا میں مسافر دن کی جلتی دھوپ کا رات میرا درد پہچانے گی کیا بے کراں ہوں میں سمندر کی طرح موج شبنم قد مرا ناپے گی کیا چل پڑا ہوں سر پہ لے کر آسماں پاؤں کے نیچے زمیں ٹھہرے گی کیا شہر گل کی رہنے والی آگہی مرے زخموں کی زباں سمجھے گی ...

    مزید پڑھیے

    رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر

    رائیگاں سب کچھ ہوا کیسی بصیرت کیا ہنر گرد گرد اپنی بصیرت خاک خاک اپنا ہنر جس طرف دیکھو ہجوم چہرۂ بے چہرگاں کس گھنے جنگل میں یارو گم ہوا سب کا ہنر اب ہماری مٹھیوں میں ایک جگنو بھی نہیں چھین کر بے رحم موسم لے گیا سارا ہنر توڑ کر اس کو بھی اب کوئی ہوا لے جائے گی یہ جو برگ سبز کے ...

    مزید پڑھیے

    فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا

    فضول شے ہوں مرا احترام مت کرنا فقط دعا مجھے دینا سلام مت کرنا کہیں رکے تو نہ پھر تم کو راستہ دے گی یہ زندگی بھی سفر ہے قیام مت کرنا وہ آشنا نہیں خوابوں کی معنویت کا ہمارے خواب ابھی اس کے نام مت کرنا زبان منہ میں ہے تار گنہ کی صورت تمہارا حکم بجا ہے کلام مت کرنا مرا وجود کہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا

    میں ہی اک شخص تھا یاران کہن میں ایسا کون آوارہ پھرا کوچۂ فن میں ایسا ہم بھی جب تک جیے سر سبز ہی سر سبز رہے وقت نے زہر اتارا تھا بدن میں ایسا زندگی خود کو نہ اس روپ میں پہچان سکی آدمی لپٹا ہے خوابوں کے کفن میں ایسا ہر خزاں میں جو بہاروں کی گواہی دے گا ہم بھی چھوڑ آئے ہیں اک شعلہ ...

    مزید پڑھیے

    سوال سخت تھا دریا کے پار اتر جانا

    سوال سخت تھا دریا کے پار اتر جانا وہ موج موج مگر خود مرا بکھر جانا یہ کیا خبر تمہیں کس روپ میں ہوں زندہ میں ملے نہ جسم تو سائے کو قتل کر جانا پڑا ہوں یخ زدہ صحرائے آگہی میں ہنوز مرے وجود میں تھوڑی سی دھوپ بھر جانا کبھی تو ساتھ یہ آسیب وقت چھوڑے گا خود اپنے سائے کو بھی دیکھنا تو ...

    مزید پڑھیے

    بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں

    بساط دانش‌ و حرف و ہنر کہاں کھولیں یہ سوچتے ہیں لب معتبر کہاں کھولیں عجب حصار ہیں سب اپنے گرد کھینچے ہوئے وجود کی وہی دیوار در کہاں کھولیں پڑاؤ ڈالیں کہاں راستے میں شام ہوئی بھنور ہیں سامنے رخت سفر کہاں کھولیں یہاں شعور کے ناخن تو ہم بھی رکھتے ہیں مگر یہ عقدۂ‌ فکر و نظر کہاں ...

    مزید پڑھیے

    لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا

    لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا یہاں بھی کام نہ عرض ہنر سے نکلے گا ہر ایک شخص ہے بے سمتیوں کی دھند میں گم بتائے کون کہ سورج کدھر سے نکلے گا کرو جو کر سکو بکھرے ہوئے وجود کو جمع کہ کچھ نہ کچھ تو غبار سفر سے نکلے گا میں اپنے آپ سے مل کر ہوا بہت مایوس خبر تھی گرم کہ وہ آج گھر سے ...

    مزید پڑھیے

    غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا

    غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا ترے جہاں میں ہوں بے سایہ ابر کی صورت مرے نصیب میں بے ابر بارشیں لکھنا حساب درد تو یوں سب مری نگاہ میں ہے جو مجھ پہ ہو نہ سکیں وہ نوازشیں لکھنا خراشیں چہرے کی سینے کے زخم سوکھ چلے کہاں ہیں ناخن یاراں کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4