پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا
پایۂ خشت و خزف اور گہر سے اونچا قد یہاں بے ہنری کا ہے ہنر سے اونچا ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیل وجود دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا مانگتا کس سے مجھے سنگ سرافرازی دے کوئی دروازہ تو ہوتا ترے در سے اونچا ہم قدم ہے تپش جاں تو پہنچ جاؤں گا ایک دو جست میں دیوار شجر سے ...