اب شہر میں کہاں رہے وہ با وقار لوگ

اب شہر میں کہاں رہے وہ با وقار لوگ
مل کر خود اپنے آپ سے ہیں شرمسار لوگ


ہاتھوں میں وقت کے تو کوئی سنگ بھی نہ تھا
کیوں ٹوٹ کر بکھر گئے آئینہ وار لوگ


اپنے دکھوں پہ طنز کوئی کھیل تو نہ تھا
زخموں کو پھول کہہ گئے ہم وضع دار لوگ


بیٹھے ہیں رنگ رنگ اجالے تراشنے
رکھ کر لہو کی شمع سر رہ گزار لوگ


کچھ سادگیٔ طبع تھی کچھ مصلحت کا جبر
کانٹوں کو پوجتے رہے باغ و بہار لوگ


آب و ہواۓ شہر جنوں خیز تھی بہت
دامن نہیں تھے پھر بھی ہوئے تار تار لوگ


پھونکا ہمیں تو نرم شگوفوں کی اوس نے
جیتے ہیں کیسے دل میں چھپا کر شرار لوگ