فرخ عدیل کی غزل

    میں مطمئن نہ ہوا تجھ کو غم سنا کے بھی

    میں مطمئن نہ ہوا تجھ کو غم سنا کے بھی اندھیرا اور بڑھا ہے دیا جلا کے بھی قبول کرتے ہوئے دل تڑپنے لگتا ہے عجیب ہوتے ہیں کچھ فیصلے خدا کے بھی وہ آسمان مری دسترس میں کیا آتا ہزار کوششیں کیں ایڑیاں اٹھا کے بھی تجھے گلے سے لگائیں تو جاں نکلتی ہے اسیر جسم ہیں لیکن تری حیا کے بھی مگر ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے

    کبھی تو سانس تری یاد سے جدا نکلے ہماری شب کے مقدر سے رتجگا نکلے عجب نہیں کہ مرے بعد میرا کل ترکہ ہرا بھرا سا بس اک زخم اور دیا نکلے بھنور نے گھیر لیا ہے سو بچ نہ پاؤں گا یہ عشق کھیل نہیں ہے کہ راستہ نکلے یہاں تو بولتے رہنا بہت ضروری ہے سخن کے شہر میں گونگے کدھر سے آ نکلے تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    یہ چند لوگ ہمارے ہیں سب ہمارے نہیں

    یہ چند لوگ ہمارے ہیں سب ہمارے نہیں چمک رہے ہیں یہ جتنے سبھی ستارے نہیں نہ جانے جلتے ہیں کیوں ہم سے یہ جہاں والے ہمارے پاس تو اشعار ہیں شرارے نہیں وہ مسکراتا ہے اس واسطے تواتر سے کہ اس نے میری طرح دن ابھی گزارے نہیں کچھ اس لیے بھی ہم ایسوں کو موت کا ڈر ہے ہمارے سر ہیں کئی قرض جو ...

    مزید پڑھیے

    اہل سخن بتائیں مجھے مرتبہ مرا

    اہل سخن بتائیں مجھے مرتبہ مرا غالب نے آ کے خواب میں مطلع سنا مرا آیا تھا گھومنے کے لیے میں تو چار دن کس نے بنا دیا ہے یہاں مقبرہ مرا پھر مسکرا رہا ہے کوئی منہ پہ رکھ کے ہاتھ پھر آزما رہا ہے کوئی حوصلہ مرا تب مجھ پہ یہ کھلا کوئی اندر کی چوٹ ہے جب آئنے میں عکس بھی دھندلا گیا مرا

    مزید پڑھیے

    عین ممکن ہے یہ دنیا تجھے شہکار لگے

    عین ممکن ہے یہ دنیا تجھے شہکار لگے اس کی تعمیر میں ہم جیسے گنہ گار لگے دیکھنے میں تو بہت پھول تھے اس ٹہنی پر چھو کے دیکھا تو سبھی پھول ہمیں خار لگے میں نے تو زخم خریدے ہیں نہ بیچے ہیں کبھی پھر بھی یہ دل کہ کوئی درد کا بازار لگے اک جواں غم کا نتیجہ ہے کہ اکثر مجھ کو راہ چلتا ہوا ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سے کیسے کہوں کیا ملا بجھانے سے

    ہوا سے کیسے کہوں کیا ملا بجھانے سے میں تھک گیا ہوں دیے پر دیا جلانے سے اسے پکار مرے دل کہ جس نے پچھلے برس کیا تھا ترک تعلق کسی بہانے سے تو سوچ خود کہ جو ترکش پہ آن بیٹھا ہے وہ بچ سکے گا کہاں تک ترے نشانے سے گئے دنوں کی رفاقت کا یہ اثر ہے کہ اب نئے دنوں میں بھی لگتے ہیں ہم پرانے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھلا

    ہوا سے دست و گریباں ہوا تو بھید کھلا میں خود دیے کی جگہ پر جلا تو بھید کھلا ہم اپنے نقش بھی کھو بیٹھے اس حسیں کے لیے ہمارے ہاتھ لگا آئینہ تو بھید کھلا مجھے خبر ہی نہ تھی غم بھی ہیں زمانے میں جب آسماں مرے سر پر گرا تو بھید کھلا میں چیختا ہی رہا بے اثر صدائیں دیں کسی طرف نہ ملا جب ...

    مزید پڑھیے

    پوچھ مت کتنی پریشانی ہوا کرتی ہے

    پوچھ مت کتنی پریشانی ہوا کرتی ہے جب بھرے شہر میں ویرانی ہوا کرتی ہے تیرے سینے سے لگا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر سانس لینے میں بھی آسانی ہوا کرتی ہے چند اک پھول ہی ہوتے ہیں بھرے گلشن میں جن کے جھڑنے پہ پشیمانی ہوا کرتی ہے یہ جو درویش نظر آتے ہیں بھوکے پیاسے ان کے پیروں تلے سلطانی ہوا ...

    مزید پڑھیے

    پہلے جو میرا رنگ تھا اب وہ نہیں رہا

    پہلے جو میرا رنگ تھا اب وہ نہیں رہا میلا کیا ہے جس نے وہی دھو نہیں رہا جاگا ہوا ہے دل میں کوئی درد بے کراں لوری سنا رہا ہوں مگر سو نہیں رہا سوچو ذرا یہ کتنی اذیت کی بات ہے ہم مر رہے ہیں اور کوئی رو نہیں رہا یعنی چرا کے لے ہی گیا ہے مجھے وہ شخص آئینہ کہہ رہا ہے کہ تو وہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تھا مان بہت جس پہ جدائی نہیں دیتا

    تھا مان بہت جس پہ جدائی نہیں دیتا اب ڈھونڈ رہا ہوں تو دکھائی نہیں دیتا تو قد میں بڑا ہے سو مجھے چیخنا ہوگا کہتے ہیں بلندی پہ سنائی نہیں دیتا پر کاٹ کے وہ باب قفس کھول رہا ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ رہائی نہیں دیتا روشن ہے وہ اتنا کہ اسے دور سے دیکھو نزدیک سے وہ شخص دکھائی نہیں ...

    مزید پڑھیے