پوچھ مت کتنی پریشانی ہوا کرتی ہے
پوچھ مت کتنی پریشانی ہوا کرتی ہے
جب بھرے شہر میں ویرانی ہوا کرتی ہے
تیرے سینے سے لگا ہوں تو کھلا ہے مجھ پر
سانس لینے میں بھی آسانی ہوا کرتی ہے
چند اک پھول ہی ہوتے ہیں بھرے گلشن میں
جن کے جھڑنے پہ پشیمانی ہوا کرتی ہے
یہ جو درویش نظر آتے ہیں بھوکے پیاسے
ان کے پیروں تلے سلطانی ہوا کرتی ہے
دور مت بھاگ نہ ڈر جھلسے ہوئے پیڑ ہیں ہم
اپنی خواہش تو فقط پانی ہوا کرتی ہے