فاروق مضطر کی غزل

    یہ گرد راہ یہ ماحول یہ دھواں جیسے

    یہ گرد راہ یہ ماحول یہ دھواں جیسے ہوا کے رخ پہ ہو تحریر داستاں جیسے ہمارا ربط و تعلق ہے چند شاموں کا شجر پہ طائر موسم کا آشیاں جیسے عجیب خوف سا ہے پتھروں کی زد پر ہوں بدن ہو اپنا کوئی کانچ کا مکاں جیسے یہ آسمان و زمیں کا طلسم کب ٹوٹے ہر اک وجود معلق ہو درمیاں جیسے لب و دہن سے ...

    مزید پڑھیے

    میں طائر وجود یا برگ خیال تھا

    میں طائر وجود یا برگ خیال تھا بس اس قدر ہے یاد کہ میں ڈال ڈال تھا لمحوں میں مجھ کو بانٹ گیا کوئی کالا ہاتھ ورنہ میں آپ اپنا طلوع و زوال تھا چہرے کھلی کتابوں کی مانند تھے مگر بے روشنائی لکھے کو پڑھنا محال تھا مضطرؔ ہر آئنے میں تھا عکس بہار بس میں اپنی آرزو سے بہت پائمال تھا

    مزید پڑھیے

    قربتیں بڑھ گئی نگاہوں کی

    قربتیں بڑھ گئی نگاہوں کی اب حدیں ختم ہیں لباسوں کی دھوپ روکے کھڑی ہے کس کے لئے یہ سر رہ قطار پیڑوں کی اور پھیلے گا آگ کا دریا اور جھلسے گی کھال چہروں کی خودکشی کا سفر بھی سہل نہیں بھیڑ سی ہے لگی سوالوں کی کون خود میں سمو سکا ہے کبھی وسعتیں لا زوال لمحوں کی کب سے دہرا رہا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں حجرۂ خیال میں بیٹھا ہوا ہوں میں

    یوں حجرۂ خیال میں بیٹھا ہوا ہوں میں گویا مرا وجود نہیں واہمہ ہوں میں پھیلا ہے جب سے گھر میں سمندر سکوت کا بے چارگی کی چھت پہ کھڑا چیختا ہوں میں دیکھو مری جبیں پہ مرے عہد کے نقوش رکھو مجھے سنبھال کے اک آئنہ ہوں میں اب تک شب قیام کا اک سلسلہ بھی تھا اب آفتاب بن کے سفر پر چلا ہوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2