فاروق مضطر کی غزل

    صلیب موجۂ آب و ہوا پہ لکھا ہوں

    صلیب موجۂ آب و ہوا پہ لکھا ہوں ازل سے تا بہ ابد حرف حرف بکھرا ہوں وجود وہم مرا ہم سفر رہا دن بھر فصیل شام سے دیکھا تو سایہ سایہ ہوں سمیٹ لیں گے کسی دن نگاہ موسم کی شجر شجر پہ ابھی اپنا نام لکھتا ہوں چہار سمت گھرا ہوں میں پانیوں میں یہاں مرا یہ کرب کہ اک ڈوبتا جزیرہ ہوں ہوا کے ...

    مزید پڑھیے

    ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا

    ہر نئے موڑ دھوپ کا صحرا کارواں ساز رہ گئے تنہا سایۂ شاخ گل سے نامانوس وہ کوئی پالتو کبوتر تھا وہ کوئی ریشمی لباس میں تھی میں کوئی پھول تھا جو مرجھایا چاندنی چار دن بہت سوئی پانچویں دن خمار ٹوٹ گیا مچھلیاں خود فریب ہوتی ہیں اک مچھیرے نہ تبصرہ لکھا واپسی اب گھروں میں نا ...

    مزید پڑھیے

    اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا

    اپنی آنکھوں کے حصاروں سے نکل کر دیکھنا تو کسی دن اپنے نہ ہونے کا منظر دیکھنا اک عدم معلوم مدت سے میں تیری زد میں ہوں خود کو لمحہ بھر مرا قیدی بنا کر دیکھنا شام گہرے پانیوں میں ڈوب کر ایک بار پھر شہر کے موجود منظر کو پلٹ کر دیکھنا دیکھنا پچھلے پہر خوابوں کی اک اندھی قطار آسماں ...

    مزید پڑھیے

    شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں

    شفق شب سے ابھرتا ہوا سورج سوچیں برف کی تہہ سے کوئی چشمہ ابلتا دیکھیں روشنی دھوپ ہوا مل کے کیا سب نے نڈھال اب تمنا ہے کسی اندھے کنویں میں بھٹکیں جلتے بجھتے ہوئے اس شہر پہ کیا کچھ لکھا آج سب لکھا ہوا آنکھ پہ لا کر رکھ دیں جانے کیوں ڈوبتا رہتا ہوں میں اپنے اندر جانے کیوں سوجھتی ...

    مزید پڑھیے

    مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے

    مگر ان آنکھوں میں کس صبح کے حوالے تھے ہمارے نام کے سارے حروف کالے تھے یہ خاک و باد یہ ظلمات و نور و بحر و بر کتاب جاں میں یہ کس ذات کے حوالے تھے ہے رنگ رنگ مگر آفتاب آئینہ جبین شب پہ تو لکھے سوال کالے تھے مثال برق گری ایک آن تیغ ہوا ابھی دریچوں سے لوگوں نے سر نکالے تھے یہاں جو آج ...

    مزید پڑھیے

    سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا

    سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا کوئی دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا اس کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے ورنہ سطح آئنہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا جانے کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ پہلے یوں خود میں کبھی سمٹا ہوا رہتا نہ تھا خوشبوؤں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر ...

    مزید پڑھیے

    اجلے ماتھے پہ نام لکھ رکھیں

    اجلے ماتھے پہ نام لکھ رکھیں خواہشوں کا مقام لکھ رکھیں پھر ہوس کو ہے حسرت پرواز آپ دانہ و دام لکھ رکھیں ورنہ ہم اس کو بھول جائیں گے سبز حرفوں میں نام لکھ رکھیں جانے کس سمت کل ہوا لے جائے لمحۂ شاد کام لکھ رکھیں اپنے ہونے کا کچھ یقیں کر لیں ریت پر نقش و نام لکھ رکھیں شب کو ...

    مزید پڑھیے

    آنکھوں میں موج موج کوئی سوچنے لگا

    آنکھوں میں موج موج کوئی سوچنے لگا پانی میں بے ثبات نگر ڈوبنے لگا اک شاخ رنگ ہات سے موسم کے چھٹ گئی خالی بدن رگوں میں کوئی لوٹنے لگا ہے اپنے درمیان کوئی فصل ناروا دہلیز پہ کھڑا میں کسے سوچنے لگا وہ روزن خیال، صدا، سائیگی سماں پھر حرف زہر زہر زباں گھولنے لگا میں ایک برگ خشک ...

    مزید پڑھیے

    نہ پانیوں کا اضطرار شہر میں

    نہ پانیوں کا اضطرار شہر میں نہ موسموں کا اعتبار شہر میں مثال موجۂ ہوا ادھر ادھر رواں دواں ہے انتشار شہر میں ہے شب گئے گھروں میں روشنی سی کیا ہے سب کو کس کا انتظار شہر میں ہر اک نگاہ بے مقام بے جہت ہر ایک جسم بے دیار شہر میں ہر ایک رنگ آئنہ پہ گرد سا ہر ایک نقش دل فگار شہر ...

    مزید پڑھیے

    نقش آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا

    نقش آخر آپ اپنا حادثہ ہو جائے گا اور طے وہم و یقیں کا مرحلہ ہو جائے گا گونج اٹھیں گے در و دیوار اپنے کرب سے لفظ جو تشنہ ہے معنی آشنا ہو جائے گا جسم بھی پگھلیں گے سائے بھی نہ ٹھہریں گے کہیں جانے کب یہ سبز منظر بھی ہوا ہو جائے گا لوگ سب اس کی کہانی جان لیں گے حرف حرف اور وہ خوش پوش ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2