چناب تجھ کو یاد ہے
کہ تیرے ساحلوں کی نرم ریت پر
ہوئی تھیں مہرباں وہ انگلیاں
انہی کی ایک پور نے جو رقص عشق میں کیا
اک اسم پھر امر ہوا
چناب تیری ریت پر
وہ اسم اب کہیں نہیں
بتا وہ ہاتھ کیا ہوئے
وہ نقش سب ہوا ہوئے
وہ خواب سب دھواں ہوئے
نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے
یہ خواب ہے عجیب سا
ابھی بھی کچھ نہیں گیا
میں چاہتی ہوں آنکھ جب کھلے تو نرم ریت پر مرا ہی ایک نام ہو