فرحان سالم کی غزل

    میں ترے سنگ کیسے چلوں ہم سفر تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا

    میں ترے سنگ کیسے چلوں ہم سفر تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا تو کہاں میں کہاں الاماں الحذر تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا تجھ سے ہے سب یہ حسن جہاں معتبر تجھ کو سجدے کرے کہکشاں سر بہ سر تو حریم قمر میں حزین سحر تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا گاہ شوریدہ سر گاہ خاموش تر تجھ میں پوشیدہ ...

    مزید پڑھیے

    کیا بتائیں کیا کل شب آخری پہر دیکھا

    کیا بتائیں کیا کل شب آخری پہر دیکھا کارگاہ گردوں پر چاند کا سفر دیکھا جلوہ گاہ ہستی میں حسن جلوہ گر دیکھا ہائے ہم نفس مت پوچھ کب کہاں کدھر دیکھا آہ وہ شب پر نم اف وہ نور کی محفل درمیاں ستاروں کے جلوۂ قمر دیکھا اس جمال عریاں کو صرف اک نظر دیکھا پھر وہی نظر آیا جب جہاں جدھر ...

    مزید پڑھیے

    متاع درد مآل حیات ہے شاید

    متاع درد مآل حیات ہے شاید دل شکستہ مری کائنات ہے شاید بس اک نقاب تھی وہ صبح نو کے چہرہ پر ہم اس فریب میں الجھے کہ رات ہے شاید خرد کی حد بھی ملی ہے جنون پر آ کر جنون قہر خرد سے نجات ہے شاید یہ اک خلش کہ مسلسل ستا رہی ہے مجھے کہ لب وہ کانپے ہیں کیوں کوئی بات ہے شاید انہیں گماں کہ ...

    مزید پڑھیے

    شوق آسودۂ تحلیل معمہ نہ ہوا

    شوق آسودۂ تحلیل معمہ نہ ہوا تیرا بیمار طلسمات سے اچھا نہ ہوا تو نے دے کر مجھے جو خواب اتارا تھا یہاں ان میں اک خواب بھی تیرا کوئی سچا نہ ہوا امتداد سحر و شام زمانوں کی قسم ایک بھی رنگ مرے پیار کا پھیکا نہ ہوا شوق بے حد نے کسی گام ٹھہرنے نہ دیا ورنہ کس گام مرا خون تمنا نہ ...

    مزید پڑھیے

    اداس شام میں پژمردہ باد بن کے نہ آ

    اداس شام میں پژمردہ باد بن کے نہ آ جو آ سکے تو خود آ اپنی یاد بن کے نہ آ کبھی سحر بھی تو بن اے وصال کے موسم سدا یوں ہی شب مرگ مراد بن کے نہ آ تجھے ترے مہ و انجم کا واسطہ اے رات مرے ان اجلے دروں پر سواد بن کے نہ آ کتاب زیست خدا را کوئی غزل بھی سنا شکست جاں کی فقط روئداد بن کے نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2