عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو
عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو عشق زندہ ہے ذرا دست صبا پر لکھ دو آ رہے ہیں سبھی اپنوں سبھی غیروں کے سلام تم بھی دشنام کوئی میری قبا پر لکھ دو پھر جلا ہے کسی آنگن میں کوئی تازہ چراغ پھر کوئی قتل کسی دست جفا پر لکھ دو حوصلہ سب نے بڑھایا ہے مرے منصف کا تم بھی انعام کوئی میری سزا ...