Farhan Hanif Warsi

فرحان حنیف وارثی

فرحان حنیف وارثی کی غزل

    عمومی سوچ سے بڑھ کر بھی کچھ فن کار رکھتا ہے

    عمومی سوچ سے بڑھ کر بھی کچھ فن کار رکھتا ہے وسیلہ کوئی بھی ہو قوت اظہار رکھتا ہے مرا یہ دل بظاہر مصلحت اندیش ہے لیکن انا حاوی اگر ہو جرأت انکار رکھتا ہے رعایا خود کو کتنی بے اماں محسوس کرتی ہے عداوت شاہ سے جب بھی سپہ سالار رکھتا ہے تعجب ہے وفا کے باب میں بھی حد مقرر ہے وہ سب ...

    مزید پڑھیے

    آئینے میں چہرہ رکھ کر سوچوں گا

    آئینے میں چہرہ رکھ کر سوچوں گا میں اب خود کو تنہا رکھ کر سوچوں گا دور فلک سے اک دن میں بھی ابھروں گا پھر ٹھوکر میں دنیا رکھ کر سوچوں گا کس منزل سے میرا رشتہ گہرا ہے پاؤں تلے ہر رستہ رکھ کر سوچوں گا میرا جزو بھی جیسے کل میں شامل ہو دریا میں ایک قطرہ رکھ کر سوچوں گا یکساں قدریں ...

    مزید پڑھیے

    یہ دنیا دائمی گھر ہے نہیں ہے

    یہ دنیا دائمی گھر ہے نہیں ہے پھر اس کے بعد محشر ہے نہیں ہے نہیں سایہ سراپا نور یعنی تذبذب ہے وہ پیکر ہے نہیں ہے بصارت سے ضروری ہے بصیرت نگاہوں میں جو منظر ہے نہیں ہے مری گردش مرے اطراف ہی کیوں مرا بھی کوئی محور ہے نہیں ہے ہر اک سائے کے پیچھے بھاگتے ہیں کہو اپنا بھی رہبر ہے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    قد کے لحاظ سے تو سبھی آسمان تھے

    قد کے لحاظ سے تو سبھی آسمان تھے ہم جیسے با کمال مگر بے نشان تھے جیتے نہ تھے گزارتے رہتے تھے روز و شب سانسیں نہ تھیں قدم بہ قدم امتحان تھے تنہا نہتے لڑتے رہے زندگی کی جنگ لشکر تھا ساتھ اور نہ تیر و کمان تھے اے اجنبی نہ پوچھ اداسی کا ماجرا وہ لوگ کھو گئے ہیں جو بستی کی جان ...

    مزید پڑھیے

    مکان چہرے دکان چہرے

    مکان چہرے دکان چہرے ہماری بستی کی جان چہرے اجاڑ نسلوں کے نوحہ گر ہیں خزاں رسیدہ جوان چہرے دھواں دھواں منظروں کا حصہ خیال خوشبو گمان چہرے روایتوں کے نقوش جن پر وہ کھنڈروں سے مکان چہرے کوئی تأثر ہو زندگی کا کریں خوشی غم بیان چہرے کوئی نہیں ہے کسی سے واقف نگر میں سب بے نشان ...

    مزید پڑھیے

    نفی ہوئے تھے سب اثبات

    نفی ہوئے تھے سب اثبات میرے دن میرے حالات آمدنی کیا شے ہے یار کیوں ہوتے ہیں اخراجات غم شہنائی گونجتے ہی آئی یادوں کی بارات ادنیٰ سا اک مہرہ میں جس نے دی تھی شہہ کو مات بند ملے جب گھر کے در آنگن میں جا لیٹی رات بکھرا بکھرا میرا شوق سمٹی سمٹی اس کی ذات اس موسم تک آئی یار بیتی رت ...

    مزید پڑھیے

    ایسی تھی آگ وقت کی رشتے بھی جل گئے

    ایسی تھی آگ وقت کی رشتے بھی جل گئے آبائی رکھ رکھاؤ کے قصے بھی جل گئے جسموں میں کھولتا ہی رہا آگہی کا خون تپتے ہوئے خیال میں لہجے بھی جل گئے گہری ریاضتوں سے میں سورج نما ہوا پھر یوں ہوا کہ خون کے رشتے بھی چل گئے وہ کیا گیا کہ چار سو چنگاریاں ہیں اب اوراق پر سجے ہوئے سپنے بھی جل ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی میں خود سے اوب جاتا ہوں

    جب بھی میں خود سے اوب جاتا ہوں میرؔ صاحب کو گنگناتا ہوں جھوٹ کیوں سوئیاں چبھوتا ہے آنکھ جب سچ سے میں چراتا ہوں وار کرتا ہوں جب خلاؤں میں جھومتا اور مسکراتا ہوں جب کبھی جی ذرا سنبھلتا ہے کچھ نئے درد ڈھونڈ لاتا ہوں خواب پلکوں پہ رک نہیں پاتے کون آتا ہے چونک جاتا ہوں روز مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دل میں آ بیٹھا اور چٹکی لی ارمانوں میں

    کوئی دل میں آ بیٹھا اور چٹکی لی ارمانوں میں رات عجب منظر دیکھا جب چاند کھلا میدانوں میں پیٹ کی ذلت نے بالآخر بازاروں نیلام کیا عزت جانے قید تھی کب سے موروثی تہہ خانوں میں جیسے کوئی دھیمے لفظوں میرا نام پکارے ہے ایک صدا رہ رہ کر اب بھی در آتی ہے کانوں میں یادوں کی ایک تتلی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے بارے میں سوچ لیتے ہیں

    اپنے بارے میں سوچ لیتے ہیں یعنی اب ہم بہت اکیلے ہیں خوف آتا ہے بھیڑ سے جب بھی گھر کی ویرانیوں سے ڈرتے ہیں میرے ماضی کی بند مٹھی میں تیری یادوں کے چند سکے ہیں کیا کریں ہر بشر کی آنکھوں میں بے یقینی کے گہرے سائے ہیں بات کرتے ہوئے یہ لگتا ہے خواب لفظوں کی شکل امڈے ہیں

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2