Fareed Ishrati

فرید عشرتی

فرید عشرتی کی نظم

    یقین

    چاپ قدموں کی سنو رات کے تارے نہ گنو کوئی آئے گا بہ ہر حال ضرور آئے گا اپنی آنکھوں میں چھپائے ہوئے سپنے کل کے لے کے تابندہ نگاہوں کا غرور آئے گا یاس و حرماں کے اندھیروں میں ستارے بھر دو دل کے خوابیدہ دریچوں سے کہو آنکھ ملیں باد صرصر سے کہو جا کے چلے اور کہیں خواب فردا کے در و بام پہ ...

    مزید پڑھیے

    افسانۂ شب رنگ

    عارض گل پہ لرزتی ہوئی بیکل شبنم منتظر ہے کہ چلے باد سحر کوئی جھونکا کوئی سورج کی کرن پاس آ جائے تو افسانہ شب رنگ سنے نغمۂ زہرہ و ناہید کی جھنکار سنے بربط سلمیٰ کے تاروں کی صدائے دل کش آبشاروں کی ندا خارزاروں کی صدا پھول کے دل کی جلن سوزش مہتاب کا حال ڈوبتے تاروں کے خاموش نگاہوں ...

    مزید پڑھیے

    جب تمنائیں مسکراتی ہیں

    جب تمنائیں مسکراتی ہیں پھول بنتی ہیں اور مہکتی ہیں کوئی چپکے سے میرے سینے میں صبح کا نور گھول جاتا ہے کھڑکیاں دل کی کھول جاتا ہے صاف شفاف سے دریچوں میں رقص کرتا ہے ماہتاب کوئی دل کی گہرائیوں میں گرتے ہی ڈوب جاتا ہے آفتاب کوئی چاند آتا ہے چاندنی لے کر جھک کے تارے سلام کرتے ...

    مزید پڑھیے

    بے باک اندھیرے

    جب کبھی شب کے طلسمات میں کھو جاتا ہوں یا ترے حسن کی آغوش میں سو جاتا ہوں تیری تصویر ابھرتی ہے پس پردۂ خواب ایک ٹوٹے ہوئے بے لوث ستارے کی طرح چیر کر سینۂ آفاق کی تاریک فضا از‌‌ راہ وفا تیری تصویر اٹھا لیتا ہوں عارض و لب کے جواں گیت چرا لیتا ہوں دور تک جادۂ فردا پہ مہک اٹھتے ...

    مزید پڑھیے

    تقاضا

    پھر رات کی تاریک ادائیں ہیں مسلط پھر صبح کے ہاتھوں سے حنا چھوٹ رہی ہے جو ہار تیرے واسطے گوندھا تھا کسی نے اس ہار کی اک ایک لڑی ٹوٹ رہی ہے جو ساز کبھی واقف اسرار جنوں تھا اس ساز کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہے کیا ہوش تجھے ساقیٔ میخانۂ دنیا وہ کون سا ساغر ہے جو اب ٹوٹ رہا ہے تقدیر کو ...

    مزید پڑھیے

    کاغذ کے پھول

    پھول کاغذ کے ہیں خوشبو سے بہت دور ہیں یہ میری ماں تو انہیں بیکار چنا کرتی ہے چاندنی ہو کہ کڑی دھوپ کی گرمی کچھ ہو میری خاطر تو کہاں روز پھرا کرتی ہے میرے ملبوس محبت کا جو پیوند بنے مجھ کو اس ریشمی کپڑے کی ضرورت کیا ہے جو کبھی اپنا کبھی غیر کا بیمار بنے مجھ کو اس حسن کی یلغار سے ...

    مزید پڑھیے

    سحر ہونے تک

    ایک بجلی کے کھمبے تلے کتنے زندہ بچے اور کتنے جلے کس کو معلوم ہو کیسے معلوم ہو کوئی ان کا شریک شب غم نہ تھا شام سے تا سحر اپنے انجام سے بے خبر آتش سوز پنہاں میں جلتے رہے رقص کرتے رہے صبح ہونے سے پہلے سیہ رات کے قافلے سرد لاشوں کے انبار کو آ کے بکھرا گئے شکستہ پروں کو ہواؤں کے جھونکے ...

    مزید پڑھیے

    فن کار اور موت

    جب مجھے یہ خیال آتا ہے ایک فن کار مر نہیں سکتا اس کی تخلیق زندہ رہتی ہے اس کا کردار مر نہیں سکتا یاد آتے ہیں مجھ کو وہ فن کار زندگی بھر جو زہر پی کے جئے غم کی تصویر بن کے زندہ رہے دہر فانی میں اپنے فن کے لئے اور اس دہر کے نکموں نے ان کی راہوں میں خار بکھرائے جب یہ دشت جنوں میں اور ...

    مزید پڑھیے

    غم کا بادل

    غم کا بادل گر برس جائے تو ابھرے آفتاب غم سمندر موتیوں کی کان ہے یا رگ سنگ گراں مایہ کی اک پہچان ہے غم وہ آئینہ کہ جس میں عکس زلف عنبریں صورت ارض و سما جلوہ نما خواب زار زندگی کے واسطے غم کا پرتو پرتو خورشید ہے غم کا بادل گر برس جائے تو ابھرے آفتاب

    مزید پڑھیے

    بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

    شیشے کے نازک برتن میں صابن گھول رہی ہے ننھی گڑیا نرکل کی نازک پھکنی سے پھونک رہی ہے غبارے ہر غبارہ اک خواب سا بن کر تیر رہا ہے کمرے میں کمرے کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ٹوٹ رہا ہے میں خاموش اپنے کمرے میں یہ کھیل تماشا دیکھ رہا ہوں اس کے نازک ہونٹوں کی نازک سی شرارت دیکھ رہا ہوں یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2