فرح خان کی غزل

    پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں

    پرائے دشت میں نیندیں لٹا کے آئی ہوں پر اس کی آنکھ میں سپنے سجا کے آئی ہوں میں کوزہ گر تو نہیں تھی مگر حقیقت ہے میں اس کی مرضی کا اس کو بنا کے آئی ہوں جسے بھی جانا ہو جائے چراغ جلتا ہوا بڑا کٹھن تھا اگرچہ بجھا کے آئی ہوں پلٹ تو آئی ہوں لیکن خموش دریا کو سلگتی پیاس کا قصہ سنا کے آئی ...

    مزید پڑھیے

    چراغ صبر کے جس نے جلائے رویا ہے

    چراغ صبر کے جس نے جلائے رویا ہے ہوا سے ربط و تعلق بڑھائے رویا ہے سلگتے خوابوں کی تعبیر کی بناوٹ میں جو اپنی آنکھیں مسلسل جگائے رویا ہے یہی نہیں کہ پرندے لہو بہاتے ہیں اداس تنہا شجر بھی تو ہائے رویا ہے سمجھ لو پانی سے نسبت اسے رہی ہوگی جو کینوس پہ سمندر بنائے رویا ہے میں جانتی ...

    مزید پڑھیے

    ترے سوا تو نظر میں کوئی جچا ہی نہیں

    ترے سوا تو نظر میں کوئی جچا ہی نہیں یہ مسئلہ تو مگر تجھ کو دکھ رہا ہی نہیں وہ دل کی بات نگاہوں سے جان سکتا تھا وہ جلدباز مگر ان میں جھانکتا ہی نہیں لکیر کھینچ کے نقشہ غلط کیا میں نے کہ میرا ہاتھ کسی کی طلب رہا ہی نہیں سمے کی جھیل نے پانی ترائی پر پھینکا وہ شہ سوار مگر اس طرف گیا ...

    مزید پڑھیے

    فصیل جان پہ سائے ہیں زرد بیلوں کے

    فصیل جان پہ سائے ہیں زرد بیلوں کے یہ کیسے ابر سے چھائے ہیں زرد بیلوں کے تمہاری آنکھوں پہ خوشبو اتر چکی لیکن ہمیں تو خواب تک آئے ہیں زرد بیلوں کے وہ سرخ پھول کتابوں میں دیکھ روتا رہا جسے بھی قصے سنائے ہیں زرد بیلوں کے خبر نہیں بھی ہوا کو تو باغ جانتا ہے جو میں نے رنج اٹھائے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا

    اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا کیا کیا وگرنہ دل کو خسارہ نہیں ہوا اک لفظ جس کے عجز میں اظہار دم بخود اک نام میری آنکھ کا تارہ نہیں ہوا وہ خواب بن کے آنکھ سے پھوٹا تو ہے مگر اک اشک بن گیا ہے شرارہ نہیں ہوا ہم کوزہ گر کے ہاتھ میں بھی جڑ نہیں سکے اس بھر بھری سی خاک کا گارا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سورج طناب شام کو تھامے کھڑا رہے

    سورج طناب شام کو تھامے کھڑا رہے اس کے پلٹ کے آنے کا امکان سا رہے شب بھر در گماں رہے دستک کا منتظر گلیوں میں اک فریب کو آواز پا رہے ازبر رہیں کسی طرح پچھلی رفاقتیں سوکھے ہوئے شجر پہ بھی اک گھونسلہ رہے میں مثل بوئے گل ہوں ہواؤں کے ساتھ ساتھ محسوس کر سکے وہ مجھے ڈھونڈھتا رہے جاتے ...

    مزید پڑھیے

    یہ زندگی جو ملی ہم کو کم محبت میں

    یہ زندگی جو ملی ہم کو کم محبت میں کہ جی سکے ہیں نہ مر پائے ہم محبت میں بس ایک شام تجھے دل نے کر دیا رخصت پھر اس کے بعد رہی آنکھ نم محبت میں یہ اور بات کہ تو نے بھلا دیے ہیں مگر ہمیں تو یاد ہیں تیرے کرم محبت میں تمہارا ہجر تو آیا ہے جان کو جاناں کرو نا وصل کی رت کو بھی ضم محبت ...

    مزید پڑھیے