اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا
اک عشق تھا جو ہم سے دوبارہ نہیں ہوا
کیا کیا وگرنہ دل کو خسارہ نہیں ہوا
اک لفظ جس کے عجز میں اظہار دم بخود
اک نام میری آنکھ کا تارہ نہیں ہوا
وہ خواب بن کے آنکھ سے پھوٹا تو ہے مگر
اک اشک بن گیا ہے شرارہ نہیں ہوا
ہم کوزہ گر کے ہاتھ میں بھی جڑ نہیں سکے
اس بھر بھری سی خاک کا گارا نہیں ہوا
خود اعتماد شخص تھا بے اعتماد بھی
اپنا نہ بن سکا تو ہمارا نہیں ہوا
شوریدگی کے عارضے تک آ گیا فرحؔ
اک بوجھ جو کہ دل سے اتارا نہیں ہوا