سورج طناب شام کو تھامے کھڑا رہے

سورج طناب شام کو تھامے کھڑا رہے
اس کے پلٹ کے آنے کا امکان سا رہے


شب بھر در گماں رہے دستک کا منتظر
گلیوں میں اک فریب کو آواز پا رہے


ازبر رہیں کسی طرح پچھلی رفاقتیں
سوکھے ہوئے شجر پہ بھی اک گھونسلہ رہے


میں مثل بوئے گل ہوں ہواؤں کے ساتھ ساتھ
محسوس کر سکے وہ مجھے ڈھونڈھتا رہے


جاتے ہوئے وہ نام مرے دل پہ لکھ گیا
چھوڑے ہوئے مکاں پہ مکیں کا پتا رہے


ایسے گزر رہی ہے حوادث کے درمیاں
کشتی سفر پسند ہو پانی رکا رہے


بجھتے ہوئے چراغ کی لو پر ہے انحصار
ہو اشک بھی نہ آنکھ میں باقی تو کیا رہے


یوں بھی نہ ہوں فرحؔ مرے مسدود راستے
اس سے کبھی کبھی تو کہیں سامنا رہے