Faragh Rohvi

فراغ روہوی

فراغ روہوی کی غزل

    کبھی حریف کبھی ہم نوا ہمیں ٹھہرے

    کبھی حریف کبھی ہم نوا ہمیں ٹھہرے کہ دشمنوں کے بھی مشکل کشا ہمیں ٹھہرے کسی نے راہ کا پتھر ہمیں کو ٹھہرایا یہ اور بات کہ پھر آئینہ ہمیں ٹھہرے جو آزمایا گیا شہر کے فقیروں کو تو جاں نثار طریق انا ہمیں ٹھہرے ہمیں خدا کے سپاہی ہمیں مہاجر بھی تھے حق شناس تو پھر رہنما ہمیں ٹھہرے دلوں ...

    مزید پڑھیے

    ہماری حق نوائی کیا

    ہماری حق نوائی کیا سنے گی یہ خدائی کیا کسی ظل الٰہی تک مری ہوگی رسائی کیا فلک سے جب اتر آئے سفر کرتے خلائی کیا انا کے سامنے تیری ہماری کج ادائی کیا تمہاری زلف پیچاں سے ملے گی اب رہائی کیا فراغؔ اس کی نگاہوں میں لہو کیا روشنائی کیا

    مزید پڑھیے

    میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا

    میں ایک بوند سمندر ہوا تو کیسے ہوا یہ معجزہ مرے اندر ہوا تو کیسے ہوا یہ بھید سب پہ اجاگر ہوا تو کیسے ہوا کہ میرے دل میں ترا گھر ہوا تو کیسے ہوا نہ چاند نے کیا روشن مجھے نہ سورج نے تو میں جہاں میں منور ہوا تو کیسے ہوا نہ آس پاس چمن ہے نہ گل بدن کوئی ہمارا کمرہ معطر ہوا تو کیسے ...

    مزید پڑھیے

    جو بھی انجام ہو آغاز کیے دیتے ہیں

    جو بھی انجام ہو آغاز کیے دیتے ہیں موسموں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں کچھ تو پہلے سے تھا رگ رگ میں شجاعت کا سرور کچھ ہمیں آپ بھی جاں باز کیے دیتے ہیں حد سے آگے جو پرندے نہیں اڑنے والے حادثے ان کو بھی شہباز کیے دیتے ہیں دشت و صحرا یہ سمندر یہ جزیرے یہ پہاڑ منکشف ہم پہ کئی راز کیے ...

    مزید پڑھیے

    پھر خوف کا اک رنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی

    پھر خوف کا اک رنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی درپیش کوئی جنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی محفوظ کہیں بھی تو نہیں ہے سر انساں ہر ہاتھ میں اب سنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی جائیں تو کہاں جائیں اماں ڈھونڈنے والے انساں پہ زمیں تنگ یہاں بھی ہے وہاں بھی اللہ رے تجدید رفاقت کی یہ کوشش ہر شخص مگر دنگ یہاں ...

    مزید پڑھیے

    نواح جاں میں کسی کے اترنا چاہا تھا

    نواح جاں میں کسی کے اترنا چاہا تھا یہ جرم میں نے بس اک بار کرنا چاہا تھا جو بت بناؤں گا تیرا تو ہاتھ ہوں گے قلم یہ جانتے ہوئے جرمانہ بھرنا چاہا تھا بغیر اس کے بھی اب دیکھیے میں زندہ ہوں وہ جس کے ساتھ کبھی میں نے مرنا چاہا تھا شب فراق اجل کی تھی آرزو مجھ کو یہ روز روز تو میں نے نہ ...

    مزید پڑھیے

    کبھی یقیں سے ہوئی اور کبھی گماں سے ہوئی

    کبھی یقیں سے ہوئی اور کبھی گماں سے ہوئی ترے حضور رسائی کہاں کہاں سے ہوئی فلک نہ ماہ منور نہ کہکشاں سے ہوئی کھلی جب آنکھ ملاقات خاک داں سے ہوئی نہ فلسفی نہ مفکر نہ نکتہ داں سے ہوئی ادا جو بات ہمیشہ تری زباں سے ہوئی کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں مرے جنون کی شہرت ترے بیاں ...

    مزید پڑھیے

    کہیں سورج کہیں ذرہ چمکتا ہے

    کہیں سورج کہیں ذرہ چمکتا ہے اشارے سے ترے کیا کیا چمکتا ہے فلک سے جب نئی کرنیں اترتی ہیں گہر سا شبنمی قطرہ چمکتا ہے اسے دنیا کبھی دریا نہیں کہتی چمکنے کو تو ہر صحرا چمکتا ہے ستارہ تو ستارہ ہے مرے بھائی کبھی تیرا کبھی میرا چمکتا ہے مری میلی ہتھیلی پر تو بچپن سے غریبی کا کھرا ...

    مزید پڑھیے

    کبھی نہ سوچا تھا میں نے اڑان بھرتے ہوئے

    کبھی نہ سوچا تھا میں نے اڑان بھرتے ہوئے کہ رنج ہوگا زمیں پر مجھے اترتے ہوئے یہ شوق غوطہ زنی تو نیا نہیں پھر بھی اتر رہا ہوں میں گہرائیوں میں ڈرتے ہوئے ہوا کے رحم و کرم پر چراغ رہنے دو کہ ڈر رہا ہوں نئے تجربات کرتے ہوئے نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا جس میں کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے ساتھ امید بہار تم بھی کرو

    ہمارے ساتھ امید بہار تم بھی کرو اس انتظار کے دریا کو پار تم بھی کرو ہوا کا رخ تو کسی پل بدل بھی سکتا ہے اس ایک پل کا ذرا انتظار تم بھی کرو میں ایک جگنو اندھیرا مٹانے نکلا ہوں ردائے تیرہ شبی تار تار تم بھی کرو تمہارا چہرہ تمہیں ہو بہ ہو دکھاؤں گا میں آئنہ ہوں، مرا اعتبار تم بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2