Faisal Fehmi

فیصل فہمی

فیصل فہمی کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    محبت کے حوالے ڈھونڈھتا ہے

    محبت کے حوالے ڈھونڈھتا ہے اندھیروں میں اجالے ڈھونڈھتا ہے خدا جانے وہ کیسا باؤلا ہے حرم میں مے پیالے ڈھونڈھتا ہے مسافر دو قدم چل کر پریشان کہ اپنے پا کے چھالے ڈھونڈھتا ہے سمندر میں تلاشیں تو بہت ہیں خزانے وہ نرالے ڈھونڈھتا ہے رہے تا بود قائم رازداری خدا کچھ ایسے تالے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کی آج انتہا کر دو

    عشق کی آج انتہا کر دو روح کو جسم سے جدا کر دو ہے خلاصہ یہی محبت کا ہو جو اچھا اسے برا کر دو یہ جو آنکھوں سے خون جاری ہے اس کو ہاتھوں کی تم حنا کر دو وقت رخصت گلے لگا لینا آخری بار یہ خطا کر دو تم مجھے چھوڑ کیوں نہیں دیتی اپنے حق میں تو فیصلہ کر دو شبنمی رات کے اندھیرے کو برہنہ ...

    مزید پڑھیے

    اور تو کچھ نہیں کیا ہوگا

    اور تو کچھ نہیں کیا ہوگا میں نے پھر موت کو جیا ہوگا اس کے ساگر سے لب لگائے تھے اس نے اک گھونٹ تو پیا ہوگا آج بلبل نے اس چنبیلی سے جانے کیا کان میں کہا ہوگا ایک باقی چراغ تھا اچھا اس کو تم نے بجھا دیا ہوگا کچھ دنوں قبل تک نیا تھا میں اب جو ہے آج کل نیا ہوگا

    مزید پڑھیے

    سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی

    سنو خاموش ہی ہستی مری تم سے جدا ہوگی کہ اب ہر اک فریاد عنایت بے نوا ہوگی کسی فرد محبت سے بھلا امید کیا رکھنا محبت بے وفا تھی بے وفا ہے بے وفا ہوگی پرانے کاغذوں پہ درج میری شاعری شاید کسی مجروح دل کے زخم کی مائل ردا ہوگی کرو گے ظلم کب تک مشورہ ہے باز آ جاؤ بہت پچھتاؤ گے تم ظلم ...

    مزید پڑھیے

    اک نظر مڑ کے مجھے دیکھ اے جانے والے

    اک نظر مڑ کے مجھے دیکھ اے جانے والے یہ جو لمحے ہیں کبھی پھر نہیں آنے والے کتنی پاکیزہ جگہ ہے کہ جہاں پر لوگوں اہل مقتل ہیں مری لاش جلانے والے غم دوراں کے مصائب کا مداوا کیا ہے عشق بس عشق بتاتے ہیں بتانے والے یہی سب لوگ ہیں ان سب نے مرا قتل کیا یہ مری قبر کو پھولوں سے سجانے ...

    مزید پڑھیے

تمام

2 نظم (Nazm)

    جستجو

    تمہاری خاموش سلگتی سانسوں میں اپنے وجود کا احساس ڈھونڈھتا رہتا ہوں میں آج کل وہ سانسیں جن کی ہر اونچ نیچ میں میرے نام کا آہنگ تھا وہ سانسیں جو تمہارے بے چین دھڑکتے دل سے مطمئن میرے نام کا طواف کرتی تھیں جن کی ہر اک آہٹ میں میرا نام گونجتا تھا آج ان سانسوں میں وہ جو میری سانسیں ...

    مزید پڑھیے

    التجا

    آج تو کچھ پیار کے بیمار کا بھی ذکر ہو کب تلک بیٹھیں گے یوں ہی پھول مرجھائے ہوئے کب تلک باد صبا زندان شب میں قید ہو کب تلک دہکیں گے شعلے ہجر کے گلزار میں کب تلک عریاں رہیں گے یہ شجر گل سب صف بہ صف کب تلک روئے گی شبنم کب تلک ہاں کب تلک آج تو کچھ پیار کے بیمار کا بھی ذکر ہو

    مزید پڑھیے