اس کو جانے دے اگر جاتا ہے
اس کو جانے دے اگر جاتا ہے زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے پیڑ دیمک کی پذیرائی میں دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے ایک لمحے کا سفر ہے دنیا اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے چند خوشیوں کو بہم کرنے میں آدمی کتنا بکھر جاتا ہے
اس کو جانے دے اگر جاتا ہے زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے پیڑ دیمک کی پذیرائی میں دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے ایک لمحے کا سفر ہے دنیا اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے چند خوشیوں کو بہم کرنے میں آدمی کتنا بکھر جاتا ہے
حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے میں بھی رکتا ہوں مگر ریگ رواں کی صورت میرا ٹھہراؤ روانی کی طرح ہوتا ہے تیرے جاتے ہی میں شکنوں سے نہ بھر جاؤں کہیں کیوں جدا مجھ سے جوانی کی طرح ہوتا ہے جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر خواب میں نقل مکانی کی ...
عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے محبتوں کو کوئی بد دعا لگی ہوئی ہے پناہ دیتی ہے ہم کو نشے کی بے خبری ہمارے بیچ خبر کی بلا لگی ہوئی ہے کمال ہے نظر انداز کرنا دریا کو اگرچہ پیاس بھی بے انتہا لگی ہوئی ہے پلک جھپکتے ہی خواہش نے کینوس بدلا تلاش کرنے میں چہرہ نیا لگی ہوئی ہے تو ...
میں غار میں تھا اور ہوا کے بغیر تھا اک روز آفتاب ضیا کے بغیر تھا ساحل پہ آ کے ڈوب گئی ناؤ اپنے آپ اک شخص اس میں اپنی رضا کے بغیر تھا سب رو رہے تھے خوف کی دیوار سے لگے کہرام تھا کہ صوت و صدا کے بغیر تھا کیوں نقش پا تمام کسی دائرے میں تھے یہ کون تھا جو دست دعا کے بغیر تھا فیصلؔ جو ...
میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے مگر وہ میرا نہیں تھا ...
مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا سورج کو رو رہا ہوں خدایا کہاں گیا پھر آئنے میں خون دکھائی دیا مجھے آنکھوں میں آ گیا تو چھپایا کہاں گیا آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا کتنے چراغ گھر میں جلائے گئے نہ پوچھ گھر آپ جل گیا ہے جلایا کہاں ...
گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے کرتے ہیں بہت لوگ مگر ہم نہیں کرتے ہے اپنی طبیعت میں جو خامی تو یہی ہے ہم عشق تو کرتے ہیں مگر کم نہیں کرتے نفرت سے تو بہتر ہے کہ رستے ہی جدا ہوں بے کار گزر گاہوں کو باہم نہیں کرتے ہر سانس میں دوزخ کی تپش سی ہے مگر ہم سورج کی طرح آگ کو مدھم نہیں ...