Faisal Ajmi

فیصل عجمی

فیصل عجمی کی غزل

    اس کو جانے دے اگر جاتا ہے

    اس کو جانے دے اگر جاتا ہے زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے پیڑ دیمک کی پذیرائی میں دیکھتے دیکھتے مر جاتا ہے ایک لمحے کا سفر ہے دنیا اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے چند خوشیوں کو بہم کرنے میں آدمی کتنا بکھر جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے

    حرف اپنے ہی معانی کی طرح ہوتا ہے پیاس کا ذائقہ پانی کی طرح ہوتا ہے میں بھی رکتا ہوں مگر ریگ رواں کی صورت میرا ٹھہراؤ روانی کی طرح ہوتا ہے تیرے جاتے ہی میں شکنوں سے نہ بھر جاؤں کہیں کیوں جدا مجھ سے جوانی کی طرح ہوتا ہے جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر خواب میں نقل مکانی کی ...

    مزید پڑھیے

    عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے

    عداوتوں میں جو خلق خدا لگی ہوئی ہے محبتوں کو کوئی بد دعا لگی ہوئی ہے پناہ دیتی ہے ہم کو نشے کی بے خبری ہمارے بیچ خبر کی بلا لگی ہوئی ہے کمال ہے نظر انداز کرنا دریا کو اگرچہ پیاس بھی بے انتہا لگی ہوئی ہے پلک جھپکتے ہی خواہش نے کینوس بدلا تلاش کرنے میں چہرہ نیا لگی ہوئی ہے تو ...

    مزید پڑھیے

    میں غار میں تھا اور ہوا کے بغیر تھا

    میں غار میں تھا اور ہوا کے بغیر تھا اک روز آفتاب ضیا کے بغیر تھا ساحل پہ آ کے ڈوب گئی ناؤ اپنے آپ اک شخص اس میں اپنی رضا کے بغیر تھا سب رو رہے تھے خوف کی دیوار سے لگے کہرام تھا کہ صوت و صدا کے بغیر تھا کیوں نقش پا تمام کسی دائرے میں تھے یہ کون تھا جو دست دعا کے بغیر تھا فیصلؔ جو ...

    مزید پڑھیے

    میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

    میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا کبھی بھلایا کبھی یاد کر لیا اس کو یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے مگر وہ میرا نہیں تھا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا

    مجھ کو یہ فکر کب ہے کہ سایہ کہاں گیا سورج کو رو رہا ہوں خدایا کہاں گیا پھر آئنے میں خون دکھائی دیا مجھے آنکھوں میں آ گیا تو چھپایا کہاں گیا آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا کتنے چراغ گھر میں جلائے گئے نہ پوچھ گھر آپ جل گیا ہے جلایا کہاں ...

    مزید پڑھیے

    گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے

    گر جائے جو دیوار تو ماتم نہیں کرتے کرتے ہیں بہت لوگ مگر ہم نہیں کرتے ہے اپنی طبیعت میں جو خامی تو یہی ہے ہم عشق تو کرتے ہیں مگر کم نہیں کرتے نفرت سے تو بہتر ہے کہ رستے ہی جدا ہوں بے کار گزر گاہوں کو باہم نہیں کرتے ہر سانس میں دوزخ کی تپش سی ہے مگر ہم سورج کی طرح آگ کو مدھم نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2