Faisal Ajmi

فیصل عجمی

فیصل عجمی کی غزل

    شامیانوں کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے

    شامیانوں کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے آج خیرات ہے دعوت تو نہیں کی گئی ہے دیکھتی ہے ہمیں دنیا اسے روکا جائے ساتھ رہتے ہیں محبت تو نہیں کی گئی ہے ہم نے کاسہ ہی بڑھایا ہے دعا دیتے ہوئے در بہ در جا کے شکایت تو نہیں کی گئی ہے راستہ ہے اسے ملنے کی جگہ کہتے ہیں آپ سے ملنے کی زحمت تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھی نہیں کہ دست دعا تک نہیں گیا

    یہ بھی نہیں کہ دست دعا تک نہیں گیا میرا سوال خلق خدا تک نہیں گیا پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا مصلوب ہو رہا تھا مگر ہنس رہا تھا میں آنکھوں میں اشک لے کے خدا تک نہیں گیا جو برف گر رہی تھی مرے سر کے آس پاس کیا لکھ رہی تھی مجھ سے پڑھا تک نہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہجر موجود ہے فسانے میں

    ہجر موجود ہے فسانے میں سانپ ہوتا ہے ہر خزانے میں رات بکھری ہوئی تھی بستر پر کٹ گئی سلوٹیں اٹھانے میں رزق نے گھر سنبھال رکھا ہے عشق رکھا ہے سرد خانے میں رات بھی ہو گئی ہے دن جیسی گھر جلانے کے شاخسانے میں روز آسیب آتے جاتے ہیں ایسا کیا ہے غریب خانے میں ہو رہی ہے ملازمت ...

    مزید پڑھیے

    کسی نے کیسے خزانے میں رکھ لیا ہے مجھے

    کسی نے کیسے خزانے میں رکھ لیا ہے مجھے اٹھا کے اگلے زمانے میں رکھ لیا ہے مجھے وہ مجھ سے اپنے تحفظ کی بھیک لے کے گیا اور اب اسی نے نشانے میں رکھ لیا ہے مجھے میں کھیل ہار چکا ہوں تری شراکت میں کہ تو نے مات کے خانے میں رکھ لیا ہے مجھے مرے وجود کی شاید یہی حقیقت ہے کہ اس نے اپنے فسانے ...

    مزید پڑھیے

    ان لوگوں میں رہنے سے ہم بے گھر اچھے تھے

    ان لوگوں میں رہنے سے ہم بے گھر اچھے تھے کچھ دن پہلے تک تو سب کے تیور اچھے تھے دیکھ رہا ہے جس حیرت سے پاگل کر دے گا آئینے سے ڈر لگتا ہے پتھر اچھے تھے نادیدہ آزار بدن کو غارت کر دے گا زخم جو دل میں جا اترے ہیں باہر اچھے تھے رات ستاروں والی تھی اور دھوپ بھرا تھا دن جب تک آنکھیں دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں

    اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں گر پڑا ہاتھ سے آئینہ پریشانی میں آ گئے ہو تو برابر ہی میں خیمہ کر لو میں تو رہتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب تو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں کبھی دیکھا ہی نہیں اس نے پریشاں مجھ کو میں کہ رہتا ہوں سدا ...

    مزید پڑھیے

    دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں

    دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں روشنی میں بدل رہا ہوں میں ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو آئنے سے نکل رہا ہوں میں رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے جیسے پتھر میں پل رہا ہوں میں ہر خزانے کو مار دی ٹھوکر اور اب ہاتھ مل رہا ہوں میں خوف غرقاب ہو گیا فیصلؔ اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    رخت سفر ہے اس میں قرینہ بھی چاہیے

    رخت سفر ہے اس میں قرینہ بھی چاہیے آنکھیں بھی چاہیے دل بینا بھی چاہیے ان کی گلی میں ایک مہینہ گزار کر کہنا کہ اور ایک مہینہ بھی چاہیے مہکے گا ان کے در پہ کہ زخم دہن ہے یہ واپس جب آؤ تو اسے سینا بھی چاہیے رونا تو چاہیے ہے کہ دہلیز ان کی ہے رونے کا رونے والو قرینہ بھی چاہیے دولت ...

    مزید پڑھیے

    تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مرے دوست

    تیری آنکھیں نہ رہیں آئینہ خانہ مرے دوست کتنی تیزی سے بدلتا ہے زمانہ مرے دوست جانے کس کام میں مصروف رہا برسوں تک یاد آیا ہی نہیں تجھ کو بھلانا مرے دوست پوچھنا مت کہ یہ کیا حال بنا رکھا ہے آئینہ بن کے مرا دل نہ دکھانا مرے دوست اس ملاقات میں جو غیر ضروری ہو جائے یاد رہتا ہے کسے ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص پریشان ہے گھبرایا ہوا ہے

    ہر شخص پریشان ہے گھبرایا ہوا ہے مہتاب بڑی دیر سے گہنایا ہوا ہے ہے کوئی سخی اس کی طرف دیکھنے والا یہ ہاتھ بڑی دیر سے پھیلایا ہوا ہے حصہ ہے کسی اور کا اس کار زیاں میں سرمایہ کسی اور کا لگوایا ہوا ہے سانپوں میں عصا پھینک کے اب محو دعا ہوں معلوم ہے دیمک نے اسے کھایا ہوا ہے دنیا کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2