Fahmi Badayuni

فہمی بدایونی

فہمی بدایونی کی غزل

    موت کی سمت جان چلتی رہی

    موت کی سمت جان چلتی رہی زندگی کی دکان چلتی رہی سارے کردار سو گئے تھک کر بس تری داستان چلتی رہی میں لرزتا رہا ہدف بن کر مشق تیر و کمان چلتی رہی الٹی سیدھی چراغ سنتے رہے اور ہوا کی زبان چلتی رہی دو ہی موسم تھے دھوپ یا بارش چھتریوں کی دکان چلتی رہی جسم لمبے تھے چادریں چھوٹی رات ...

    مزید پڑھیے

    جب ریتیلے ہو جاتے ہیں

    جب ریتیلے ہو جاتے ہیں پربت ٹیلے ہو جاتے ہیں توڑے جاتے ہیں جو شیشے وہ نوکیلے ہو جاتے ہیں باغ دھوئیں میں رہتا ہے تو پھل زہریلے ہو جاتے ہیں ناداری میں آغوشوں کے بندھن ڈھیلے ہو جاتے ہیں پھولوں کو سرخی دینے میں پتے پیلے ہو جاتے ہیں

    مزید پڑھیے

    تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں

    تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں کیسے ملتا کہیں پہ تھا ہی نہیں گھر کے ملبے سے گھر بنا ہی نہیں زلزلے کا اثر گیا ہی نہیں مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں کل سے مصروف خیریت میں ہوں شعر تازہ کوئی ہوا ہی نہیں رات بھی ہم نے ہی صدارت کی بزم میں اور کوئی تھا ہی نہیں یار تم ...

    مزید پڑھیے

    چلتی سانسوں کو جام کرنے لگا

    چلتی سانسوں کو جام کرنے لگا وہ نظر سے کلام کرنے لگا رات فرہاد خواب میں آیا اور فرشی سلام کرنے لگا پھر میں زہریلے کارخانوں میں زندہ رہنے کا کام کرنے لگا صاف انکار کر نہیں پایا وہ مرا احترام کرنے لگا لیلیٰ گھر میں سلائی کرنے لگی قیس دلی میں کام کرنے لگا ہجر کے مال سے دل ...

    مزید پڑھیے

    صحراؤں نے مانگا پانی

    صحراؤں نے مانگا پانی دریاؤں پر برسا پانی بنیادیں کمزور نہیں تھیں دیواروں سے آیا پانی آخر کس کس نیم کی جڑ میں کب تک ڈالیں میٹھا پانی چھت کا حال بتا دیتا ہے پرنالے سے گرتا پانی فکر و مسائل یاد جاناں گرم ہوائیں ٹھنڈا پانی پیاسے بچہ کھیل رہے ہیں مچھلی مچھلی کتنا پانی

    مزید پڑھیے

    سہارے جانے پہچانے بنا لوں

    سہارے جانے پہچانے بنا لوں ستونوں پر ترے شانے بنا لوں اجازت ہو تو اپنی شاعری سے ترے دو چار دیوانے بنا لوں ترا سایہ پڑا تھا جس جگہ پر میں اس کے نیچے تہہ خانے بنا لوں ترے موزے یہیں پر رہ گئے ہیں میں ان سے اپنے دستانے بنا لوں ابھی خالی نہ کر خود کو ٹھہر جا میں اپنی روح میں خانے بنا ...

    مزید پڑھیے

    پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا

    پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا کتنا آسان تھا علاج مرا چارہ گر کی نظر بتاتی ہے حال اچھا نہیں ہے آج مرا میں تو رہتا ہوں دشت میں مصروف قیس کرتا ہے کام کاج مرا کوئی کاسہ مدد کو بھیج اللہ میرے بس میں نہیں ہے تاج مرا میں محبت کی بادشاہت ہوں مجھ پہ چلتا نہیں ہے راج مرا

    مزید پڑھیے

    خط لفافے میں غیر کا نکلا

    خط لفافے میں غیر کا نکلا اس کا قاصد بھی بے وفا نکلا جان میں جان آ گئی یارو وہ کسی اور سے خفا نکلا شعر ناظم نے جب پڑھا میرا پہلا مصرعہ ہی دوسرا نکلا پھر اسی قبر کے برابر سے زندہ رہنے کا راستہ نکلا

    مزید پڑھیے

    ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا

    ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا بغیر اشکوں کے رونا چاہیے تھا اب ان کو یاد کر کے رو رہے ہیں بچھڑتے وقت رونا چاہیے تھا مری وعدہ خلافی پر وہ چپ ہے اسے ناراض ہونا چاہیے تھا چلا آتا یقیناً خواب میں وہ ہمیں کل رات سونا چاہیے تھا سوئی دھاگہ محبت نے دیا تھا تو کچھ سینہ پرونا چاہیے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2