Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کی نظم

    اے مبارز طلب

    عشق کی تند خیزی کے اوقات آخر ہوئے اے مبارز طلب زندگی الوداع الوداع..... اپنے اوقات آخر ہوئے خواب کی لہر میں درد کے شہر میں گرد..... رخت سفر دل لہو میں ہے تر زندگی کٹ گئی تیغ کی دھار پر سجدہ کرتے جبیں کتنی زخمی ہوئی اور خدا آج تک ہم سے راضی نہیں اور زمیں سخت ہے منزلیں گرد ہیں بادلوں کی ...

    مزید پڑھیے

    وہ اور میں....

    اس کو مرے خوابوں کا رستہ جانے کس نے دکھایا ہے میں جب آدھی رات کو تھک کر اپنے آپ پہ گرتا ہوں وہ چپکے سے آ جاتی ہے سبز سنہرے خواب لیے نرم گلابی ہاتھوں سے مرے بالوں کو سلجھاتی ہے دھیمے سروں میں فیضؔ کی نظم سناتی ہے میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں نیند میں جاگتا رہتا ہوں اور وہ میرے بازو ...

    مزید پڑھیے

    سبز رتوں میں قدیم گھروں کی خوشبو

    جن گلیوں کا سورج رستہ بھول گیا ہو ان میں کسی بھی آہٹ کا کوئی گیت نہیں گونجا کرتا بوسیدہ دروازے کھڑکیاں بل کھاتے چوبی زینوں پر ناچتی رہتی ہے ویرانی گرد و غبار میں ڈوبے کمرے آپس میں باتیں کرتے ہیں بند دریچے سانپوں جیسی آنکھوں سے دور دراز کو جانے والی سبز رتوں کی یادوں میں روتے ...

    مزید پڑھیے

    بھگت سنگھ کے نام

    کہیں جب سرفروشی کی محبت استقامت کی شہادت کی وطن کی بات چلتی ہے مجھے تم یاد آتے ہو یہ دھارے رک نہیں سکتے ستارے جھک نہیں سکتے کنارے دیکھتے رہنا نظارے رک نہیں سکتے ہوا بہتی ہی رہتی ہے سمندر سے سمندر تک لہو دریافت کرتا ہے نئی تحریک کا منشور یہ کرنیں درج کرتی ہیں ہر اک دھرتی پہ ہونے کا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3