Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کی نظم

    آئینہ دیکھتے ہو

    اس کے آداب تو پہلے سیکھو خاک میں خون رگ جاں تو ملا کر دیکھو آنکھ دریا تو بنا کر دیکھو شام کی ٹھنڈی ہوا راستوں کو دے گی بوسے خواب آنکھوں میں سمندر کا اتر آئے گا رنگ میں رنگ ملیں گے گیت پھر چھیڑیں گے دریا کے کنارے اشجار آئینہ دیکھتے ہو سطح دریا پہ جہاں کائی بنے آئینہ چاندنی جھیل کی ...

    مزید پڑھیے

    صبر کی چادر تہہ کر دی

    کوئی آگ پئے کہ زہر پئے یا سانپ ڈسے کی موت مرے اب دھوپ کے جل تھل دریا سے کوئی اپنے منہ میں ریت بھرے ہم نے تو پیالہ الٹ دیا اور الٹ دیا ہر اک منظر جب شام کی آنکھیں خون ہوئیں اور بودلہ بوٹی بوٹی تھی یہ بستی ظلم کی ظلمت میں تب کچی دھوپ چباتی تھی اور دریا پیتی جاتی تھی مسواک زمین میں گاڑ ...

    مزید پڑھیے

    علی بابا کوئی سم سم

    علی بابا یہ عجلت ہمتوں کو پست کرتی ہے محبت راستے میں موت کو تجویز کرتی ہے ہوس تیری گھنے جنگل سے چوروں کو مری بستی میں لے آئی وہ چالیس چور..... بستی کے گلی کوچوں میں اب مقتل سجاتے ہیں علی بابا خزانہ پانے کی عجلت ترے ماضی کی محرومی کا ابتر شاخسانہ ہے یہ تیری بد نصیبی سے بھی بد تر اک ...

    مزید پڑھیے

    خودکشی کے پل پر

    خودکشی کے پل پر سمندر کی لہروں میں بہتی فسردہ و ناکام جسموں کی روحیں بلاتی ہیں مجھ کو چلے آؤ ہر غم سے دامن چھڑا لو مٹا دو فنا ہونے والے بدن کو مٹا دو فنا سے نہ ڈرنا یہی اصل میں زندگی ہے اسی میں حقیقی خوشی ہے سمندر کی لہروں میں سیال روحوں کے گیتوں میں بے حد کشش ہے یہ دل چاہتا ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    راہداری میں گونجتی نظم

    بارہ دری میں چاند سر شام ہو گیا رہ داریوں کے پردے اڑاتی رہی ہوا مشعل تلے غلام کی تلوار کھو گئی برجی پہ جب ستارہ گرا رات تھی بہت اور شاہ وقت اپنے ہی نشے میں مست تھا پشواز نیچے دائرہ اس کو نہیں ملا بارہ دری میں آگ لگی تھی لگی رہی اور بانسری کے نے کہیں خاموش رہ گئی اور چاند شاہزادی کے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے شجرے بکھر گئے ہیں

    گماں کی بے رنگ ساعتوں میں نواح کرب و بلا سے دربار شام تک ہم لہو کی اک ایک بوند کا سب خراج دے کر تمام قرضے چکاتے آئے شکستہ دہلیز لہو کی محراب سناں کا منبر ہماری عزت بڑھاتے آئے وہ ہم ہی تھے جو قیام کرتے رکوع میں جھکتے زکوٰۃ دے کر خود اپنے حصے کا طعام دے کر درود و صلوٰۃ پڑھتے آئے وہ ہم ...

    مزید پڑھیے

    زندگی سے مکالمہ

    زندگی ہو گئی ہے بے ترتیب اب ٹھکانے پہ کوئی چیز نہیں کچھ یہاں تھا مگر یہاں کب ہے کچھ وہاں ہے مگر وہاں کب ہے اب سر جلوہ گاہ کوئی نہیں جو بھی ہے رونما گماں ہی تو ہے ''ہونا'' ہونے کا اک نشاں ہی تو ہے شام میں گھل گیا ہے خواب کا رنگ دل میں کوئی دیا جلے نہ جلے خواب اپنے کمال کو پہنچا کسی ...

    مزید پڑھیے

    سب کھیل تماشا ختم ہوا

    جب شام کی پلکیں تھرائیں یادوں کی آنکھیں بھر آئیں ہر لہر میں ایک سمندر تھا جو دل کو بہا لے جاتا تھا ساحل سے دور جزیروں پر دل بہتے بہتے ڈوب گیا پھر رات ہوئی پھر ہوا میں آنسو گھلنے لگے پھر خوابوں کی محرابوں میں میں گھر کا رستہ بھول گیا پھر سانس سے پہلے موت آئی اور کھیل تماشا ختم ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کون بلاتا رہتا ہے

    ''مرے پاؤں کے نیچے خاک نہیں کسی اور زمیں کی مٹی ہے'' مرے ہاتھ میں وقت کی راسیں ہیں جو پل پل پھسلی جاتی ہیں اور ہرے درختوں کی شاخیں مرا رستہ جھانکتی رہتی ہیں اور سبز گھنیرا جنگل ہے مرے پاؤں کے نیچے چاند نہیں اک اور ہی دیس کی مٹی ہے اور دھوپ کا دریا موج میں ہے اور دشت مرے قدموں سے ...

    مزید پڑھیے

    ''لا'' بھی ہے ایک گماں

    تم نے کیا دیکھا یہاں کچھ بھی نہیں ہم نے کیا پایا یہاں کچھ بھی نہیں ''بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں'' ''لا'' سے آغاز فسانے کا ہوا ''لا'' سے تہذیب زمانے کی ہوئی ''لا'' کی تفسیر نہیں ہے ممکن ''لا'' ہی سے عشق کا آغاز ہوا عشق ہے ایک بلا عشق سفاک و ہوس ناک دریدہ دامن جس کے قدموں سے بپھرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3