Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کی نظم

    زمیں خواب خوشبو

    منڈیروں سے جب دھوپ اتری ابھی رات جاگی نہیں تھی ابھی خواب کا چاند صحرا میں سویا ہوا تھا سمندر کے بالوں میں چاندی چمکتی نہیں تھی کسی طاق میں بھی دیئے کی کوئی لو بھڑکتی نہیں تھی فضاؤں میں گیتوں کی مہکار تھی پرندے ابھی آشیانوں کو بھولے نہیں تھے وہ سپنوں میں کھوئی ہوئی تھی زمانے پہ ...

    مزید پڑھیے

    اب تو کچھ بھی یاد نہیں

    کتنے منظر ٹوٹ کے گرتے رہتے ہیں ان آنکھوں سے یخ بستہ پاتالوں میں کتنے دکھ ہر لمحہ لپٹے رہتے ہیں اجلے پاؤں کے چھالوں سے کن یادوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ہم ذہنوں میں جو باقی نہیں حوالوں میں چاندنی جیسے کتنے ہی جسم ڈوبتے ڈوبتے چیخ رہے تھے مٹی کے کچے پیالوں میں اور اب تو کچھ ایسا ...

    مزید پڑھیے

    دیر ہو گئی

    عالم پناہ خیر سے بے دار ہو گئے عالم پناہ!.... خیر..... کہاں آپ چل دیے رستے تمام بند ہوئے دیر ہو گئی اور کیسی دوپہر میں گھنی رات ہو گئی فانوس جھاڑ قمقمے روشن نہیں ہوئے اور طاقچوں میں باقی نہیں کوئی بھی چراغ اور بیگمات حجرے سے باہر نکل پڑیں اور شاہزادیوں کے سروں پر نہیں ردا یہ رنگ و ...

    مزید پڑھیے

    حادثہ

    رات ہی رات میں راستے شہر سے جنگلوں کو مڑے نیند گم ہو گئی خوب صورت حسیں خوب رو لڑکیاں عورتیں بن گئیں بہتے پانی میں ان کو بہایا گیا خواب زادے ہوئے داستانوں میں گم رات ہی رات میں اژدھے نوجوانوں کا دل کھا گئے نیٹی جیٹی پہ سب لاپتہ ہو گئے آن کی آن میں شہر کیسے مٹا خواب کیسے جلا

    مزید پڑھیے

    آہستہ سے گزرو

    گزرنا ہی اگر ٹھہرا تو آہستہ سے گزرو کوئی آہٹ نہ ہو پائے ابھی رستے میں رستہ سو رہا ہے ابھی ویرانی کے پہلو میں خوابیدہ ہے خاموشی ابھی تنہائی سے لپٹی مسافت سو رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو دشت تحیر جاگ جائے لہو میں بے کراں غم کا سمندر جاگ جائے ابھی تو پہلے ڈر ہی سے رگوں میں خامشی ہے ابھی تو ...

    مزید پڑھیے

    سارباں

    سارباں نکلے تھے جس وقت گھروں سے اپنے آشیانوں کو پرندے بھی نہیں چھوڑتے جب راستے رستوں کی آغوش ہی میں سوئے تھے اور ہوا سبز پہاڑوں سے نہیں اتری تھی آسماں پر ابھی تاروں کی سجی تھی محفل سارباں نکلے تھے جس وقت گھروں سے اپنے رنگ خوابوں میں ابھی گھلتے تھے جسم میں وصل کی لذت کا نشہ باقی ...

    مزید پڑھیے

    اور خدا خاموش تھا

    ایک بوسے کی طلب میں جسم کبڑے ہو گئے زندگی پانی ہوئی آسماں سے کہکشاؤں کی بہار آگ برساتی رہی زندگی فٹ پاتھ پر ایک روٹی کی طلب میں ہاتھ پھیلاتی رہی قطرہ قطرہ بے بسی تیزاب سی جسم پگھلاتی رہی ردی چنواتی رہی نیٹی جیٹی پر کھڑی خلق خدا ہنستی رہی اور خدا خاموش تھا

    مزید پڑھیے

    بے بسی گیت بنتی رہتی ہے

    خواب گرمی کی چھٹیوں پہ گئے ہو گئے بند گیٹ آنکھوں کے عشق کو داخلہ ملا ہی نہیں خواہشیں لاکروں میں قید رہیں جو بکے اس کے دام اچھے ہوں زندگی ہو کہ کوئی تتلی ہو بے ثباتی کے رنگ کچے ہیں کون بتلائے ان زمینوں کو جنگلوں کے گھنے درختوں میں گر خزاں بیلے ڈانس کرتی ہو مصر کو کون یاد کرتا ہے کم ...

    مزید پڑھیے

    شب گردوں کے لیے اک نظم

    رات ہے بردہ فروش اس کے بہکائے ہوئے ہوش میں کب آئے ہیں اپنے آنچل کے ستارے بھی جو نیلام کرے اس کی بانہوں میں جو بہکا ہے وہ سنبھلا ہی نہیں اس کی باتوں میں جو آیا وہ کبھی سویا نہیں جس کے پیکر کو ہوا نے بھی کبھی مس نہ کیا رات پرکار فسوں زار اور آشفتہ مزاج جس کی آنکھوں کو کسی خواب نے بوسہ ...

    مزید پڑھیے

    قصہ تمام

    خاک میں خاک ملی اور ہوا قصہ تمام آگ میں آگ ملے تو بھڑکے آب میں آب ملے تو مچلے خاک میں خاک ملے اور ہو سب قصہ تمام جیسے سائے پہ گرا ہو سایہ جیسے چھا جائے شام گرم پر شور سے دن کا یہ بھیانک انجام وقت بے رحم غضب ناک بلا کا سفاک وقت وہ سیل رواں جس کے آگے جو چلے وہ بھی مرے جس سے پیچھے جو رہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3