Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کے تمام مواد

14 غزل (Ghazal)

    حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آ سکتا

    حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آ سکتا کیسا ہوتا ہے خدا تم کو میں دکھلا سکتا اس سفر پہ ہوں کہ ہلکان ہوا جاتا ہوں اور کہاں جانا ہے یہ بھی نہیں بتلا سکتا ہارنا بھی ہے یقینی پہ مری فطرت ہے ایک ہی چال ہمیشہ نہیں دہرا سکتا زندگی اب تو مجھے اور کھلونے لا دے ایسے خوابوں سے تو میں دل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا

    زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا تمہارے بعد زمان و مکاں کو چھوڑ دیا تباہ کر گیا اک لمحۂ خراب مجھے کہ میں نے حلقۂ آوارگاں کو چھوڑ دیا کہیں پناہ نہیں ملتی لمحہ بھر کے لیے کہ جب سے محفل دل دادگاں کو چھوڑ دیا بس ایک کنج خس و خاک میں سکون ملا سو میں نے حلقۂ سیارگاں کو چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر

    ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری کبھی تو ہم سے ملوگے حجاب سے باہر تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر کسی کے دل میں اترنا ہے کار لا حاصل کہ ساری دھوپ تو ہے آفتاب سے باہر شناسؔ کھول ...

    مزید پڑھیے

    دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا

    دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا کہ شام بیت گئی اور تو نہیں آیا جہاں سے میں نے کیا تھا کبھی سفر آغاز میں خاک دھول ہوا لوٹ کر وہیں آیا وہ جس کے ہاتھ سے تقریب دل نمائی تھی ابھی وہ لمحۂ موجود میں نہیں آیا بس ایک بار مری نیند چھو گیا کوئی پھر اس کے بعد ہر اک خواب دل نشیں آیا بچھڑ کے ...

    مزید پڑھیے

    میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا

    میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا جیسے کہ ایک دشت سے دریا گزر گیا یوں جگمگا اٹھا ہے تری یاد سے وجود جیسے لہو سے کوئی ستارہ گزر گیا گزرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ رستے کو چھو کے جس طرح رستہ گزر گیا منظر میں گھل گئے ہیں دھنک کے تمام رنگ بے رنگ آئینے سے وہ لمحہ گزر گیا

    مزید پڑھیے

تمام

24 نظم (Nazm)

    زمیں خواب خوشبو

    منڈیروں سے جب دھوپ اتری ابھی رات جاگی نہیں تھی ابھی خواب کا چاند صحرا میں سویا ہوا تھا سمندر کے بالوں میں چاندی چمکتی نہیں تھی کسی طاق میں بھی دیئے کی کوئی لو بھڑکتی نہیں تھی فضاؤں میں گیتوں کی مہکار تھی پرندے ابھی آشیانوں کو بھولے نہیں تھے وہ سپنوں میں کھوئی ہوئی تھی زمانے پہ ...

    مزید پڑھیے

    اب تو کچھ بھی یاد نہیں

    کتنے منظر ٹوٹ کے گرتے رہتے ہیں ان آنکھوں سے یخ بستہ پاتالوں میں کتنے دکھ ہر لمحہ لپٹے رہتے ہیں اجلے پاؤں کے چھالوں سے کن یادوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ہم ذہنوں میں جو باقی نہیں حوالوں میں چاندنی جیسے کتنے ہی جسم ڈوبتے ڈوبتے چیخ رہے تھے مٹی کے کچے پیالوں میں اور اب تو کچھ ایسا ...

    مزید پڑھیے

    دیر ہو گئی

    عالم پناہ خیر سے بے دار ہو گئے عالم پناہ!.... خیر..... کہاں آپ چل دیے رستے تمام بند ہوئے دیر ہو گئی اور کیسی دوپہر میں گھنی رات ہو گئی فانوس جھاڑ قمقمے روشن نہیں ہوئے اور طاقچوں میں باقی نہیں کوئی بھی چراغ اور بیگمات حجرے سے باہر نکل پڑیں اور شاہزادیوں کے سروں پر نہیں ردا یہ رنگ و ...

    مزید پڑھیے

    حادثہ

    رات ہی رات میں راستے شہر سے جنگلوں کو مڑے نیند گم ہو گئی خوب صورت حسیں خوب رو لڑکیاں عورتیں بن گئیں بہتے پانی میں ان کو بہایا گیا خواب زادے ہوئے داستانوں میں گم رات ہی رات میں اژدھے نوجوانوں کا دل کھا گئے نیٹی جیٹی پہ سب لاپتہ ہو گئے آن کی آن میں شہر کیسے مٹا خواب کیسے جلا

    مزید پڑھیے

    آہستہ سے گزرو

    گزرنا ہی اگر ٹھہرا تو آہستہ سے گزرو کوئی آہٹ نہ ہو پائے ابھی رستے میں رستہ سو رہا ہے ابھی ویرانی کے پہلو میں خوابیدہ ہے خاموشی ابھی تنہائی سے لپٹی مسافت سو رہی ہے کہیں ایسا نہ ہو دشت تحیر جاگ جائے لہو میں بے کراں غم کا سمندر جاگ جائے ابھی تو پہلے ڈر ہی سے رگوں میں خامشی ہے ابھی تو ...

    مزید پڑھیے

تمام