اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم
اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم اپنے ہی آپ میں اک حشر اٹھائے گئے ہم زندگی دیکھ کہ احسان ترے کتنے ہیں دل کے ہر داغ کو آئینہ بنائے گئے ہم پھر وہی شام وہی درد وہی اپنا جنوں جانے کیا یاد تھی وہ جس کو بھلائے گئے ہم کن دریچوں کے چراغوں سے ہمیں نسبت تھی کہ ابھی جل نہیں پائے کہ ...