Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کی غزل

    اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم

    اس نے پوچھا بھی مگر حال چھپائے گئے ہم اپنے ہی آپ میں اک حشر اٹھائے گئے ہم زندگی دیکھ کہ احسان ترے کتنے ہیں دل کے ہر داغ کو آئینہ بنائے گئے ہم پھر وہی شام وہی درد وہی اپنا جنوں جانے کیا یاد تھی وہ جس کو بھلائے گئے ہم کن دریچوں کے چراغوں سے ہمیں نسبت تھی کہ ابھی جل نہیں پائے کہ ...

    مزید پڑھیے

    برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہو گئی

    برگ صدا کو لب سے اڑے دیر ہو گئی ہم کو بھی اب تو خاک ہوئے دیر ہو گئی اب ساحلوں پہ کس کو صدا دے رہے ہو تم لمحوں کے بادبان کھلے دیر ہو گئی اے حسن خود پرست ذرا سوچ تو سہی مہر و وفا سے تجھ کو ملے دیر ہو گئی تیرا وصال خیر اب اک واقعہ ہوا اب اپنے آپ سے بھی ملے دیر ہو گئی صدیوں کی ریت ...

    مزید پڑھیے

    دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے

    دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے جس کی آنکھیں جھیلوں جیسی جس کے ہونٹ رسیلے تھے جس کو کھو کر خاک ہوئے ہم آج اسے بھی دیکھا تو ہنستی آنکھیں افسردہ تھیں ہونٹ بھی نیلے نیلے تھے جن کو چھو کر کتنے زیدیؔ اپنی جان گنوا بیٹھے میرے عہد کی شہنازوںؔ کے جسم بڑے زہریلے ...

    مزید پڑھیے

    رستے میں شام ہو گئی قصہ تمام ہو چکا

    رستے میں شام ہو گئی قصہ تمام ہو چکا جو کچھ بھی تھا اے زندگی وہ تیرے نام ہو چکا کب کی گزر گئی وہ شب جس میں کسی کا نور تھا کب کی گلی میں دھوپ ہے جینا حرام ہو چکا پھرتے رہیں نگر نگر کوچہ بہ کوچہ در بہ در اپنے خیام جل چکے اپنا سلام ہو چکا رات میں باقی کچھ نہیں نیند میں باقی کچھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2