Faheem Shanas Kazmi

فہیم شناس کاظمی

فہیم شناس کاظمی کی غزل

    حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آ سکتا

    حسن الفاظ کے پیکر میں اگر آ سکتا کیسا ہوتا ہے خدا تم کو میں دکھلا سکتا اس سفر پہ ہوں کہ ہلکان ہوا جاتا ہوں اور کہاں جانا ہے یہ بھی نہیں بتلا سکتا ہارنا بھی ہے یقینی پہ مری فطرت ہے ایک ہی چال ہمیشہ نہیں دہرا سکتا زندگی اب تو مجھے اور کھلونے لا دے ایسے خوابوں سے تو میں دل نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا

    زمین پر نہ رہے آسماں کو چھوڑ دیا تمہارے بعد زمان و مکاں کو چھوڑ دیا تباہ کر گیا اک لمحۂ خراب مجھے کہ میں نے حلقۂ آوارگاں کو چھوڑ دیا کہیں پناہ نہیں ملتی لمحہ بھر کے لیے کہ جب سے محفل دل دادگاں کو چھوڑ دیا بس ایک کنج خس و خاک میں سکون ملا سو میں نے حلقۂ سیارگاں کو چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر

    ہم ایک دن نکل آئے تھے خواب سے باہر سو ہم نے رنج اٹھائے حساب سے باہر اسی امید پہ گزری ہے زندگی ساری کبھی تو ہم سے ملوگے حجاب سے باہر تمہاری یاد نکلتی نہیں مرے دل سے نشہ چھلکتا نہیں ہے شراب سے باہر کسی کے دل میں اترنا ہے کار لا حاصل کہ ساری دھوپ تو ہے آفتاب سے باہر شناسؔ کھول ...

    مزید پڑھیے

    دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا

    دل تباہ کو اب تک نہیں یقیں آیا کہ شام بیت گئی اور تو نہیں آیا جہاں سے میں نے کیا تھا کبھی سفر آغاز میں خاک دھول ہوا لوٹ کر وہیں آیا وہ جس کے ہاتھ سے تقریب دل نمائی تھی ابھی وہ لمحۂ موجود میں نہیں آیا بس ایک بار مری نیند چھو گیا کوئی پھر اس کے بعد ہر اک خواب دل نشیں آیا بچھڑ کے ...

    مزید پڑھیے

    میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا

    میں یوں جہاں کے خواب سے تنہا گزر گیا جیسے کہ ایک دشت سے دریا گزر گیا یوں جگمگا اٹھا ہے تری یاد سے وجود جیسے لہو سے کوئی ستارہ گزر گیا گزرا مرے قریب سے وہ اس ادا کے ساتھ رستے کو چھو کے جس طرح رستہ گزر گیا منظر میں گھل گئے ہیں دھنک کے تمام رنگ بے رنگ آئینے سے وہ لمحہ گزر گیا

    مزید پڑھیے

    لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا

    لہو کی لہر میں اک خواب دل شکن بھی گیا پھر اس کے ساتھ ہی آنکھیں گئیں بدن بھی گیا بدلتے وقت نے بدلے مزاج بھی کیسے تری ادا بھی گئی میرا بانکپن بھی گیا بس ایک بار وہ آیا تھا سیر کرنے کو پھر اس کے ساتھ ہی خوشبو گئی چمن بھی گیا بس اک تعلق بے نام ٹوٹنے کے بعد سخن تمام ہوا رشتۂ سخن بھی ...

    مزید پڑھیے

    دل و نگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا

    دل و نگاہ میں اس کو اگر نہیں رہنا شناسؔ مجھ کو بھی پھر در بدر نہیں رہنا اگر میں آؤں گا صدیوں کی عمر لاؤں گا کہ تیرے پاس مجھے مختصر نہیں رہنا یہ کائنات مری انگلیوں پہ ناچتی ہے مجھے ستاروں کے زیر اثر نہیں رہنا میں جانتا ہوں مگر دل کو کون سمجھائے شناسؔ اس کو مرا ہم سفر نہیں رہنا

    مزید پڑھیے

    سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں

    سمجھ رہا تھا میں یہ دن گزرنے والا نہیں کھلا کہ کوئی بھی لمحہ ٹھہرنے والا نہیں کوئی بھی رستہ کسی سمت کو نہیں جاتا کوئی سفر مری تکمیل کرنے والا نہیں ہوا کی ابر کی کوشش تو پوری پوری ہے مگر دھویں کی طرح میں بکھرنے والا نہیں میں اپنے آپ کو بس ایک بار دیکھوں گا پھر اس کے بعد کسی سے ...

    مزید پڑھیے

    تمہارے بعد جو بکھرے تو کو بہ کو ہوئے ہم

    تمہارے بعد جو بکھرے تو کو بہ کو ہوئے ہم پھر اس کے بعد کہیں اپنے روبرو ہوئے ہم تمام عمر ہوا کی طرح گزاری ہے اگر ہوئے بھی کہیں تو کبھو کبھو ہوئے ہم یوں گرد راہ بنے عشق میں سمٹ نہ سکے پھر آسمان ہوئے اور چار سو ہوئے ہم رہی ہمیشہ دریدہ قبائے جسم تمام کبھی نہ دست ہنر مند سے رفو ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا

    بدن کو خاک کیا اور لہو کو آب کیا پھر اس کے بعد مرتب نیا نصاب کیا تھکن سمیٹ کے صدیوں کی جب گرے خود پر تجھے خود اپنے ہی اندر سے بازیاب کیا پھر اس کے بعد ترے عشق کو لگایا گلے ہر ایک سانس کو اپنے لیے عذاب کیا اگر وجود میں آ کر اسے نہ ملنا تھا ہمیں کیوں بھیج کے اس دہر میں خراب کیا اسی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2