Ejaz Obaid

اعجاز عبید

اعجاز عبید کی غزل

    ہتھیلیوں میں لکیروں کا جال تھا کتنا

    ہتھیلیوں میں لکیروں کا جال تھا کتنا مرے نصیب میں میرا زوال تھا کتنا تو جنگلوں کی طرح آگ مجھ میں پھیل گئی رگوں میں بہتا ہوا اشتعال تھا کتنا تبھی تو جلتی چٹانوں پہ لا کے پھینک دیا مرا وجود ہوا پر وبال تھا کتنا سبھی پرندے مرے پاس آتے ڈرتے تھے میں خشک پیڑ سہی بے مثال تھا کتنا مگر ...

    مزید پڑھیے

    دکھاتا کیا ہے یہ ٹوٹی ہوئی کمان مجھے

    دکھاتا کیا ہے یہ ٹوٹی ہوئی کمان مجھے ترا شکار ہوں اچھی طرح سے جان مجھے ہوا نے ریت کی صورت زمیں پہ لکھ دی ہے دکھائی دیتی ہے پتھر کی داستان مجھے اک آسماں نے زمیں پر گرا دیا لیکن زمیں نے پھر سے بنا ڈالا آسمان مجھے میں اس ہوا کا نہیں پانیوں کا قیدی ہوں نہ جانے کیوں لئے پھرتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ہو چہرہ شناسا دکھائی دیتا ہے

    کوئی ہو چہرہ شناسا دکھائی دیتا ہے ہر اک میں ایک ہی مکھڑا دکھائی دیتا ہے اسی شجر پہ شفق کا کرم ہے شاید آج وہ اک شجر جو سنہرا دکھائی دیتا ہے ادھر وہ دیکھو کہ آکاش کتنا دل کش ہے جہاں وہ دھرتی سے ملتا دکھائی دیتا ہے دکھائیں تم کو غروب آفتاب کا منظر یہاں افق کا کنارہ دکھائی دیتا ...

    مزید پڑھیے

    ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی

    ایسے ہی دن تھے کچھ ایسی شام تھی وہ مگر کچھ اور ہنستی شام تھی بہہ رہا تھا سرخ سورج کا جہاز مانجھیوں کے گیت گاتی شام تھی صبح سے تھیں ٹھنڈی ٹھنڈی بارشیں پھر بھی وہ کیسی سلگتی شام تھی گرم الاؤ میں سلگتی سردیاں دھیمے دھیمے ہیر گاتی شام تھی گھیر لیتے تھے طلائی دائرے پانیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کس سے ملنے جاؤ اب کس سے ملاقاتیں کرو

    کس سے ملنے جاؤ اب کس سے ملاقاتیں کرو تم اکیلے ہو دل تنہا سے ہی باتیں کرو پھر یوں ہی مل بیٹھیں ہم اور دکھ بھری باتیں کریں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگو مناجاتیں کرو سب پرندے اپنے اپنے جنگلوں میں کھو گئے اب تو ہلتی ڈالیوں سے بیٹھ کر باتیں کرو اتفاقاً ہم تمہارے سائے سے گزریں ...

    مزید پڑھیے

    گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا

    گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا نہ کھل کر دھوپ پھیلی تھی نہ بادل کھل کے برسا تھا کبھی دل بھی نہیں اک زخم آنکھوں کی جگہ آنسو کبھی میں بھی نہ تھا بس ڈائری میں شعر لکھا تھا وہ ہر پل ساتھ ہے میرے کہاں تک اس کو میں دیکھوں گئے وہ دن کہ اس کے نام پر بھی دل دھڑکتا تھا یہاں ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہنسنے میں رونے کی عادت کبھی ایسی تو نہ تھی

    ہنسنے میں رونے کی عادت کبھی ایسی تو نہ تھی تیری شوخی غم فرقت کبھی ایسی تو نہ تھی اشک آ جائیں تو پلکوں پہ بٹھاؤں گا انہیں قطرۂ خوں تری عزت کبھی ایسی تو نہ تھی کشت غم اور بھی لہرانے لگی ہنسنے لگی چشم نم تیری شرارت کبھی ایسی تو نہ تھی کتنے غم بھول گیا شکریہ تیرا غم یار یوں مجھے ...

    مزید پڑھیے

    اس نے دیکھا تھا عجب ایک تماشا مجھ میں

    اس نے دیکھا تھا عجب ایک تماشا مجھ میں میں جو رویا تو کوئی ہنستا رہا تھا مجھ میں میری آنکھوں سے خبر جان نہ لی ہو اس نے کوئی بادل تھا بہت ٹوٹ کے برسا مجھ میں جھانکنے سے مری آنکھوں میں سبھی ڈرنے لگے جب سے اترا ہے کوئی آئینہ خانہ مجھ میں کیا ہوا تھا مجھے کیوں سوچتا تھا اس کے ...

    مزید پڑھیے

    غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں

    غم بھی اتنا نہیں کہ تم سے کہیں اور چارہ نہیں کہ تم سے کہیں آج ہم بے کراں سمندر ہیں تم وہ دریا نہیں کہ تم سے کہیں یوں تو مرنے سے چین ملتا ہے یہ ارادہ نہیں کہ تم سے کہیں نیلی آنکھوں کی چاندنی کے لیے اب اندھیرا نہیں کہ تم سے کہیں تم اکیلے نہیں رہے تو کیا ہم بھی تنہا نہیں کہ تم سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2