ڈاکٹر اعظم کی غزل

    بلانا اور نہ جانا چاہتا ہوں

    بلانا اور نہ جانا چاہتا ہوں مراسم بھی نبھانا چاہتا ہوں تری قربت سے کچھ لمحے چرا کر میں اپنے پاس آنا چاہتا ہوں کہاں یہ طے نہیں کر پایا لیکن کہیں میں بھاگ جانا چاہتا ہوں کسی دن گردش ایام کو بھی میں انگلی پر نچانا چاہتا ہوں ضرورت تو نہیں تو ہے ضروری تجھے اپنا بنانا چاہتا ...

    مزید پڑھیے

    میں بزم کی متحیر سماع کر دوں کیا

    میں بزم کی متحیر سماع کر دوں کیا غزل کی صنف میں کچھ اختراع کر دوں کیا بغیر اس کے بھی زندہ ہوں اور مزے میں ہوں بچھڑنے والے کو یہ اطلاع کر دوں کیا مجھے پسند نہیں ازدحام لوگوں کا یہ منکشف میں سر اجتماع کر دوں کیا مجھے تو تم نے ہی برباد کر دیا لیکن تمہارے حق میں تمہاری دفاع کر دوں ...

    مزید پڑھیے

    پر لطف سکوں بخش ہوائیں بھی بہت تھیں

    پر لطف سکوں بخش ہوائیں بھی بہت تھیں گلشن میں تعصب کی وبائیں بھی بہت تھیں خود میں نے ہی رکھا نہ خیال اپنا کبھی بھی غیروں کی کچھ اپنوں کی جفائیں بھی بہت تھیں صورت پہ اجالے تھے اگر شمس و قمر کے زلفوں کی سیاہی میں گھٹائیں بھی بہت تھیں تھی عہد جوانی میں محبت ہی محبت ناکردہ گناہوں ...

    مزید پڑھیے

    خدا بھی جانتا ہے خوب جو مکار بیٹھے ہیں

    خدا بھی جانتا ہے خوب جو مکار بیٹھے ہیں حرم میں سرنگوں کچھ قابل فی النار بیٹھے ہیں گھروں میں ساتھ بیٹھے ہیں سر بازار بیٹھے ہیں نقاب اپنوں کا اوڑھے آج کل اغیار بیٹھے ہیں محبت کی نظر میں جیت لی ہے ہم نے وہ بازی زمانے کی نظر میں ہم کہ جس کو ہار بیٹھے ہیں خطا ہو جائے ہم سے جو کوئی تو ...

    مزید پڑھیے

    افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک

    افسوس بنی ہی نہیں پہچان ابھی تک ہر اہل نظر مجھ سے ہے انجان ابھی تک صدیوں کے تغیر سے بنی صورت انساں انسان نہیں ہے مگر انسان ابھی تک الہام سے ابہام سے ایہام سے چھوٹے کتنے ہیں خیالات پریشان ابھی تک کتنے ہی کھلے فہم و فراست کے دریچے ہیں قید جہالت میں ہم انسان ابھی تک ہیں دیر و حرم ...

    مزید پڑھیے

    زعم کا ہی تو عارضہ ہے مجھے

    زعم کا ہی تو عارضہ ہے مجھے میرا میں ہی تو کھا گیا ہے مجھے آتش زیر پا ٹھہرنے نہ دے اب تو منزل بھی راستہ ہے مجھے درد تو کم نہیں مگر اس نے خوگر ضبط کر دیا ہے مجھے خود غرض بے وفا حقیر و فقیر اس نے کیا کیا نہیں کہا ہے مجھے میں طلب گار تھا مسرت کا دفتر رنج و غم ملا ہے مجھے میں نے اشعار ...

    مزید پڑھیے

    امید پر ہماری یہ دنیا کھری نہیں

    امید پر ہماری یہ دنیا کھری نہیں پھر بھی تو اس کو پانے کی خواہش مری نہیں بے وجہ گل رخوں سے مری بے رخی کہاں میرے جنون شوق کے قابل پری نہیں تسکیں ملے بھی دیدۂ حیراں کو کس طرح شیشہ گری نہیں کہیں جلوہ گری نہیں بد رنگ سی بہار ہے فصل بہار میں بشاش دل نہیں ہے طبیعت ہری نہیں لگتا ہے آج ...

    مزید پڑھیے

    عقل کتنی شعور کتنا ہے

    عقل کتنی شعور کتنا ہے پھر بھی تجھ کو غرور کتنا ہے ہر کوئی تجھ سے دور کتنا ہے اس میں تیرا قصور کتنا ہے میٹھی میٹھی تمہاری باتوں کے پس پردہ فتور کتنا ہے ہم کو توفیق ہی نہیں ہوتی گھر ترا ورنہ دور کتنا ہے یہ تو اہل جنوں ہی جانتے ہیں ہوش تحت شعور کتنا ہے سطر در سطر پڑھنے والے ...

    مزید پڑھیے

    ہر شخص میں کچھ لوگ کمی ڈھونڈ رہے ہیں

    ہر شخص میں کچھ لوگ کمی ڈھونڈ رہے ہیں نادان ہیں مثبت میں نفی ڈھونڈ رہے ہیں گل ڈھونڈ رہے ہیں نہ کلی ڈھونڈ رہے ہیں گلشن میں بس اک شاخ ہری ڈھونڈ رہے ہیں اس یگ میں کہاں ہم بھی ولی ڈھونڈ رہے ہیں انساں میں صفات بشری ڈھونڈ رہے ہیں بادل کی سیاہی میں کرن جیسی چمکتی ہر غم میں چھپی ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    ہے نگاہوں میں کوہ طور میاں

    ہے نگاہوں میں کوہ طور میاں میں نہیں ہوں خدا سے دور میاں وہ بھی تقریر کر رہے ہیں جنہیں بولنے کا نہیں شعور میاں لے نہ ڈوبے تری عبادت کو زہد و تقویٰ کا یہ غرور میاں میرے منہ میں نہیں زباں ایسی بولتی جو ہے جی حضور میاں رہ کے دلی میں بھی یہ لگتا ہے اب بھی دلی بہت ہے دور میاں ایک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2