میں بزم کی متحیر سماع کر دوں کیا

میں بزم کی متحیر سماع کر دوں کیا
غزل کی صنف میں کچھ اختراع کر دوں کیا


بغیر اس کے بھی زندہ ہوں اور مزے میں ہوں
بچھڑنے والے کو یہ اطلاع کر دوں کیا


مجھے پسند نہیں ازدحام لوگوں کا
یہ منکشف میں سر اجتماع کر دوں کیا


مجھے تو تم نے ہی برباد کر دیا لیکن
تمہارے حق میں تمہاری دفاع کر دوں کیا


تمہیں پسند نہیں ہے مرا یہ کار سخن
تمام غزلیں کہو نذر جاں کر دوں کیا


اسی سبب تو پریشان حال رہتا ہوں
انا کے زعم کو اعظمؔ وداع کر دوں کیا