کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے
کتنے خیال رات کی پلکوں میں آئے تھے کرنوں نے سب چراغ سویرے بجھائے تھے چلنا پڑا ہوا کو بھی دامن سنبھال کر پھولوں کے ساتھ راہ میں کانٹے بچھائے تھے پانی بچا کے رکھ لیا ویرانیوں کے بیچ کس نے ہزاروں کوس سے پنچھی بلائے تھے سرسبز وہ ہی پیڑ ہوا موڑ کی طرح جس نے ہوا میں پنکھ سے پتے اڑائے ...