Dakhlan Bhopali

دخلن بھوپالی

دخلن بھوپالی کی غزل

    فیض سمجھے تھے جسے تھا وہ زیاں حیرت ہے

    فیض سمجھے تھے جسے تھا وہ زیاں حیرت ہے یہ محبت ہی مرے دل کو گراں حیرت ہے گزرے لمحات کا آنکھوں میں پگھلنا حیرت اف تری یاد کی یہ طرز بیاں حیرت ہے ایک راجا نے اتاری تھی زمیں پر گنگا اک ندی دکھ میں ہے آنکھوں سے رواں حیرت ہے ہم جسے دنیا سمجھ بیٹھے تھے اک مدت سے شخص نکلا وہ فقط ایک گماں ...

    مزید پڑھیے

    وہ بس رسہ کشی تھی

    وہ بس رسہ کشی تھی محبت تھک چکی تھی دو کشتی میں ندی تھی زمیں ویران سی تھی اچانک کیا گھٹا تھا مجھے حیرانگی تھی نظر بھر اس نے دیکھا میں سمجھا پارکھی تھی کیا سونے کو مٹی غضب کوزہ گری تھی بچاتا کون ہم کو جبیں پر شل لکھی تھی ہمیں جس نے ڈبویا ہماری سادگی تھی مسافت ختم تھی پر تھکن ...

    مزید پڑھیے

    غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی

    غزل کہیں تو وہی داستان نکلے گی ہر ایک شعر میں آہ و فغاں نکلے گی سفر کی مشکلیں رونے کا فائدہ کیا ہے کہ جاتے جاتے ہی میری تھکان نکلے گی جبیں کے نیچے دو کشتی میں باندھ لی ہے ندی ضرور لے گی یہ اک دن اپھان نکلے گی یہ سارے طنز یہ طعنے یہ رشتے ناطے سب کہاں چھپیں گے جو میری زبان نکلے ...

    مزید پڑھیے

    ابھی ابھی ہوا ہم تیرگی سے نکلے ہیں

    ابھی ابھی ہوا ہم تیرگی سے نکلے ہیں جہان عشق کی اندھی گلی سے نکلے ہیں کسی سے کہتے تو الزام اپنے سر آتا یہ حادثہ تھا سو ہم خامشی سے نکلے ہیں ہمیں یقین نہیں ہے کسی دکھاوے میں سو سمت ہجر میں ہم سادگی سے نکلے ہیں نہیں ہے قید کسی دائرے میں اپنی ذات جہاں بھی نکلے ہیں آوارگی سے نکلے ...

    مزید پڑھیے

    ہماری روح کو چھوکر گزر گیا ہے ابھی

    ہماری روح کو چھوکر گزر گیا ہے ابھی وہ ایک لمحہ نہ جانے کدھر گیا ہے ابھی کہ دور عشق میں اس کا بھی ایک جسم تو تھا مجھے ہے شک وہ فضا میں بکھر گیا ہے ابھی خزانے ڈھونڈھتا ہے وہ اگر تو لے جائے ہماری آنکھ سے ضائع گہر گیا ہے ابھی جبیں پہ لہریں تھیں بھیتر بدن میں طوفاں تھا خدا کا شکر ہے ...

    مزید پڑھیے

    تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں

    تم سے ملنا بھی نہیں تم سے بچھڑنا بھی نہیں وقت کے جیسے مگر ہم کو بدلنا بھی نہیں عشق نے پھر ہمیں اک بار ہے بخشا صحرا دریا ملنا بھی نہیں ابر برسنا بھی نہیں بڑی مشکل سے چھپاتے ہیں زمانے سے تمہیں زخم رسنا بھی ہے اور آنکھ کو گلنا بھی نہیں وہ کہیں دور بہت دور گیا ہے مجھ سے اس کو آنا بھی ...

    مزید پڑھیے

    رشک اس بات پہ مر جاتا ہے

    رشک اس بات پہ مر جاتا ہے کم سے کم ملنے تو وہ آتا ہے جانے کس طور جھیلے گا مجھ کو جی تو اس بات سے گھبراتا ہے چشم کے قفل کھلے رہنے لگے خواب بھی آنے میں شرماتا ہے چاشنی چاشنی لہجہ جس کا آج کل تلخیاں فرماتا ہے ہجر سے آس تو ہے برکت کی عشق آتا ہے چلا جاتا ہے

    مزید پڑھیے

    اجڑے ہوئے جہان بہت وقت ہو گیا

    اجڑے ہوئے جہان بہت وقت ہو گیا زندہ ہے بس تھکان بہت وقت ہو گیا اک قول تھا کہ ساتھ جئیں گے مریں گے ہم بدلے ہوئے بیان بہت وقت ہو گیا سن فصل عشق کی مری برباد ہو گئی کب تک بھروں لگان بہت وقت ہو گیا ہم خاندانی لوگ انا سے بھرے ہوئے بکھرا ہے خاندان بہت وقت ہو گیا خانہ بدوش روح تو کھنڈر ...

    مزید پڑھیے