فیض سمجھے تھے جسے تھا وہ زیاں حیرت ہے
فیض سمجھے تھے جسے تھا وہ زیاں حیرت ہے
یہ محبت ہی مرے دل کو گراں حیرت ہے
گزرے لمحات کا آنکھوں میں پگھلنا حیرت
اف تری یاد کی یہ طرز بیاں حیرت ہے
ایک راجا نے اتاری تھی زمیں پر گنگا
اک ندی دکھ میں ہے آنکھوں سے رواں حیرت ہے
ہم جسے دنیا سمجھ بیٹھے تھے اک مدت سے
شخص نکلا وہ فقط ایک گماں حیرت ہے
ایک لڑکی جو میرے حافظے سے غائب تھی
آج پھر سینے میں ہے رقص کناں حیرت ہے