ابھی ابھی ہوا ہم تیرگی سے نکلے ہیں

ابھی ابھی ہوا ہم تیرگی سے نکلے ہیں
جہان عشق کی اندھی گلی سے نکلے ہیں


کسی سے کہتے تو الزام اپنے سر آتا
یہ حادثہ تھا سو ہم خامشی سے نکلے ہیں


ہمیں یقین نہیں ہے کسی دکھاوے میں
سو سمت ہجر میں ہم سادگی سے نکلے ہیں


نہیں ہے قید کسی دائرے میں اپنی ذات
جہاں بھی نکلے ہیں آوارگی سے نکلے ہیں


ہماری آنکھ میں تنکا پڑا ہے آندھی سے
کہو نہ اشک یہ بے چارگی سے نکلے ہیں


ہمیں بنائے جو شاعر نہیں بنا وہ غم
ہمارے شعر تو ناراضگی سے نکلے ہیں


نظیر بن چکے ہیں راہ عشق کی دخلنؔ
یہ کوئی پیر ہیں دیوانگی سے نکلے ہیں