وہ بس رسہ کشی تھی

وہ بس رسہ کشی تھی
محبت تھک چکی تھی


دو کشتی میں ندی تھی
زمیں ویران سی تھی


اچانک کیا گھٹا تھا
مجھے حیرانگی تھی


نظر بھر اس نے دیکھا
میں سمجھا پارکھی تھی


کیا سونے کو مٹی
غضب کوزہ گری تھی


بچاتا کون ہم کو
جبیں پر شل لکھی تھی


ہمیں جس نے ڈبویا
ہماری سادگی تھی


مسافت ختم تھی پر
تھکن زندہ کھڑی تھی


ہوا زہریلی تھی پر
بدن میں چل رہی تھی


جسے سمجھے تھے جینا
فقط وہ خودکشی تھی


میں بس تھا نیم بسمل
محبت مر چکی تھی