چراغ شرما کی غزل

    اوروں کی پیاس اور ہے اور اس کی پیاس اور

    اوروں کی پیاس اور ہے اور اس کی پیاس اور کہتا ہے ہر گلاس پہ بس اک گلاس اور خود کو کئی برس سے یہ سمجھا رہے ہیں ہم کاٹی ہے اتنی عمر تو دو چار ماس اور پہلے ہی کم حسین کہاں تھا تمہارا غم پہنا دیا ہے اس کو غزل کا لباس اور ٹکرا رہی ہے سانس مری اس کی سانس سے دل پھر بھی دے رہا ہے صدا اور پاس ...

    مزید پڑھیے

    اڑتے ہیں گرتے ہیں پھر سے اڑتے ہیں

    اڑتے ہیں گرتے ہیں پھر سے اڑتے ہیں اڑنے والے اڑتے اڑتے اڑتے ہیں کوئی اس بوڑھے پیپل سے کہہ آؤ پنجرے میں ہم خوب مزے سے اڑتے ہیں ہائے وہ چڑیا اڑ مینا اڑ کے جھگڑے اور پھر ثابت کرنا بکرے اڑتے ہیں پنجرے میں دانا پانی سب رکھا ہے اور پرندے بھوکے پیاسے اڑتے ہیں دیکھ رہے ہیں ہم بھی جوانی ...

    مزید پڑھیے

    اب یہ گل گلنار کب ہے خار ہے بیکار ہے

    اب یہ گل گلنار کب ہے خار ہے بیکار ہے آپ نے جب کہہ دیا بیکار ہے بیکار ہے چھوڑ کر مطلع غزل دم دار ہے بیکار ہے جب سپہ سالار ہی بیمار ہے بیکار ہے اک سوال ایسا ہے میرے پاس جس کے سامنے یہ جو تیری شدت انکار ہے بیکار ہے تجھ کو بھی ہے چاند کا دیدار کرنے کی طلب اک دیے کو روشنی درکار ہے ...

    مزید پڑھیے

    جو شعر تیرے خط کی عبارت میں کام آئے

    جو شعر تیرے خط کی عبارت میں کام آئے وہ ہی مشاعروں کی نظامت میں کام آئے لایا تو تھا میں اور کسی کام سے مگر شاید یہ پھول اب مری میت میں کام آئے وہ آ گیا تھا میری گرفت وفا میں پر اس پر فریب تھے جو ضمانت میں کام آئے پھینکی ہے میرے گھر میں مرے دوست نے جو اینٹ شاید وہ میرے گھر کی مرمت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2