جو شعر تیرے خط کی عبارت میں کام آئے

جو شعر تیرے خط کی عبارت میں کام آئے
وہ ہی مشاعروں کی نظامت میں کام آئے


لایا تو تھا میں اور کسی کام سے مگر
شاید یہ پھول اب مری میت میں کام آئے


وہ آ گیا تھا میری گرفت وفا میں پر
اس پر فریب تھے جو ضمانت میں کام آئے


پھینکی ہے میرے گھر میں مرے دوست نے جو اینٹ
شاید وہ میرے گھر کی مرمت میں کام آئے


اشکوں کی جائیداد تو کر دی غزل کے نام
جو قہقہے بچے تھے مصیبت میں کام آئے


ہاں ایسے دوست کی بھی ضرورت نہیں مجھے
جو صرف اور صرف ضرورت میں کام آئے