لوٹ چلیے
سوختہ جاں سوختہ دل سوختہ روحوں کے گھر میں راکھ گرد آتشیں شعلوں کے سائے نقش ہیں دیواروں پر مفروق چہرے لوٹ چلیے اپنے سب ارمان لے کر جھوٹ ہے گزرا زمانہ اور کسی اجڑے قبیلے کی بھٹکتی روح شاید اپنے مستقبل کا دھندلا سا تصور بحر غم کے درمیاں ہے ایک کالے کوہ کی مانند یہ امروز اپنا کوہ جس ...