Bismil Sabri

بسمل صابری

  • 1937

بسمل صابری کے تمام مواد

6 غزل (Ghazal)

    وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

    وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ہے وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ...

    مزید پڑھیے

    تیری صورت نہ جب دکھائی دے

    تیری صورت نہ جب دکھائی دے کوئی رستہ نہیں سجھائی دے آپ ترک تعلقات کرے آپ الزام بے وفائی دے قرب جس کا ہے زندگی میری وہ مجھے رنج نارسائی دے میں سماعت پہ بھی یقیں کر لوں تیری آواز تو سنائی دے ہجر سی لگ رہی ہے قربت بھی کون غم سے مجھے رہائی دے جانتا ہی نہیں جو نام وفا مجھ کو الزام ...

    مزید پڑھیے

    سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا

    سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا جب آئی شب ترے خوابوں نے مجھ کو گھیر لیا مرے لبوں پہ ابھی نام تھا بہاروں کا ہجوم شوق میں خاروں نے مجھ کو گھیر لیا کبھی جنوں کے زمانے کبھی فراق رتیں کہاں کہاں تری یادوں نے مجھ کو گھیر لیا نکل کے آ تو گیا گہرے پانیوں سے مگر کئی طرح کے سرابوں نے ...

    مزید پڑھیے

    وفا کو جگمگانا چاہتے ہیں

    وفا کو جگمگانا چاہتے ہیں ہم اپنا دل جلانا چاہتے ہیں ہمیں تم اپنے دامن میں چھپا لو مسافر ہیں ٹھکانہ چاہتے ہیں پرانے زخم بھر جانے سے پہلے نئی اک چوٹ کھانا چاہتے ہیں تمہاری یاد کے سیال موتی میری پلکوں تک آنا چاہتے ہیں در دل پر کھڑے ہیں غم ہزاروں یہ پنچھی آشیانہ چاہتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنے غموں کی بات نہیں ہے ہنسی کی بات

    اپنے غموں کی بات نہیں ہے ہنسی کی بات اس رنگ میں بھی کرتے ہیں ہم زندگی کی بات دانشوروں کی بزم میں لوگو کہاں چلے لو میری وحشتوں سے سنو آگہی کی بات اہل خرد پہ فرض ہوا سجدۂ جنوں محفل میں جب چھڑی مری دیوانگی کی بات برباد ہیں بگولے پریشاں شمیم گل پہنچی کہاں کہاں تری آوارگی کی ...

    مزید پڑھیے

تمام