تیری صورت نہ جب دکھائی دے
تیری صورت نہ جب دکھائی دے
کوئی رستہ نہیں سجھائی دے
آپ ترک تعلقات کرے
آپ الزام بے وفائی دے
قرب جس کا ہے زندگی میری
وہ مجھے رنج نارسائی دے
میں سماعت پہ بھی یقیں کر لوں
تیری آواز تو سنائی دے
ہجر سی لگ رہی ہے قربت بھی
کون غم سے مجھے رہائی دے
جانتا ہی نہیں جو نام وفا
مجھ کو الزام بے وفائی دے
کہاں خود کو چھپائیں اے بسملؔ
وہ جو امید رو نمائی دے