اپنے غموں کی بات نہیں ہے ہنسی کی بات
اپنے غموں کی بات نہیں ہے ہنسی کی بات
اس رنگ میں بھی کرتے ہیں ہم زندگی کی بات
دانشوروں کی بزم میں لوگو کہاں چلے
لو میری وحشتوں سے سنو آگہی کی بات
اہل خرد پہ فرض ہوا سجدۂ جنوں
محفل میں جب چھڑی مری دیوانگی کی بات
برباد ہیں بگولے پریشاں شمیم گل
پہنچی کہاں کہاں تری آوارگی کی بات
کیا کیا زمانہ مجھ پہ لگائے نہ تہمتیں
لہجہ بدل کے کہہ دوں اگر آپ ہی کی بات
ہے اپنی اپنی سب کو ہی بسملؔ پڑی ہوئی
سنتا نہیں ہے غور سے کوئی کسی کی بات