Bismil Allahabadi

بسمل الہ آبادی

نوح ناروی کے شاگرد، شاعری میں عوامی روز مرہ کو جگہ دی، غزلوں کے ساتھ اہم مذہبی اور ملی شخصیات پر نظمیں لکھیں

A disciple of Nooh Naravi, wrote on the day-to-day experiences of life and poems on social and religious personalities

بسمل الہ آبادی کی غزل

    اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا

    اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا گردش میں ہماری قسمت تھی چکر میں ترا پیمانہ تھا محروم تھا سوز الفت سے جل جانے سے بیگانہ تھا فانوس کے اندر شمع رہی باہر باہر پروانہ تھا مے خانہ سے ہم رخصت جو ہوئے تو اور ہی کچھ مے خانہ تھا اک کونے میں خم رکھا تھا اک گوشے میں پیمانہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے

    یہ کیسی آگ ابھی اے شمع تیرے دل میں باقی ہے کوئی پروانہ جل مرنے کو کیا محفل میں باقی ہے ہزاروں اٹھ گئے دنیا سے اپنی جان دے دے کر مگر اک بھیڑ پھر بھی کوچۂ قاتل میں باقی ہے ہوئے وہ مطمئن کیوں صرف میرے دم نکلنے پر ابھی تو ایک دنیائے تمنا دل میں باقی ہے ہوا تھا غرق بحر عشق اس انداز سے ...

    مزید پڑھیے

    مل چکا محفل میں اب لطف شکیبائی مجھے

    مل چکا محفل میں اب لطف شکیبائی مجھے کھینچتی ہے اپنی جانب تیری انگڑائی مجھے بعد مرنے کے جو حاصل ہوگی رسوائی مجھے زندگی کیا سوچ کر دنیا میں تو لائی مجھے عشق میں یوں حسن کی صورت نظر آئی مجھے وہ تماشہ بن گئے کہہ کر تماشائی مجھے خود پکار اٹھتا جنوں تکمیل وحشت ہو گئی وہ سمجھ لیتے جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2