اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا
اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا گردش میں ہماری قسمت تھی چکر میں ترا پیمانہ تھا محروم تھا سوز الفت سے جل جانے سے بیگانہ تھا فانوس کے اندر شمع رہی باہر باہر پروانہ تھا مے خانہ سے ہم رخصت جو ہوئے تو اور ہی کچھ مے خانہ تھا اک کونے میں خم رکھا تھا اک گوشے میں پیمانہ ...