بلقیس خان کی غزل

    لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ہیں

    لگا کے نقب کسی روز مار سکتے ہیں پرانے دوست نیا روپ دھار سکتے ہیں ہم اپنے لفظوں میں صورت گری کے ماہر ہیں کسی بھی ذہن میں منظر اتار سکتے ہیں بضد نہ ہو کہ تری پیروی ضروری ہے ہم اپنے آپ کو بہتر سدھار سکتے ہیں وہ ایک لمحہ کہ جس میں ملے تھے ہم دونوں اس ایک لمحے میں صدیاں گزار سکتے ...

    مزید پڑھیے

    سو صدیوں کا نوحہ ہے

    سو صدیوں کا نوحہ ہے تم کہتے ہو نغمہ ہے دھول اڑاتی جھریوں میں تہذیبوں کا ملبہ ہے مٹی کے دو کوزوں میں کچھ خوابوں کا گریہ ہے ریشم ہی سے ادھڑے گا یہ پھولوں کا بخیہ ہے جتنا بھی تم صاف کرو دھبہ آخر دھبہ ہے اس گھر کی ویرانی کا جنگل جیسا حلیہ ہے در آتی ہے چپکے سے یاد پہ کس کا پہرہ ...

    مزید پڑھیے

    دشمن بہ نام دوست بنانا مجھے بھی ہے

    دشمن بہ نام دوست بنانا مجھے بھی ہے اس جیسا روپ اس کو دکھانا مجھے بھی ہے میرے خلاف سازشیں کرتا ہے روز وہ آخر کوئی قدم تو اٹھانا مجھے بھی ہے انگلی اٹھا رہا ہے تو کردار پر مرے تجھ کو ترے مقام پہ لانا مجھے بھی ہے نظریں بدل رہا ہے اگر وہ تو غم نہیں کانٹا اب اپنی رہ سے ہٹانا مجھے بھی ...

    مزید پڑھیے

    کب تلک کرچیاں چنوں گی میں

    کب تلک کرچیاں چنوں گی میں سنگ دل تجھ سے لڑ پڑوں گی میں میری آنکھیں نہیں رہیں لیکن آئنہ دیکھتی رہوں گی میں ماں کے نقش قدم پہ چلنا ہے صرف گڑیا نہیں رہوں گی میں کھینچ کر اک لکیر اداسی کی رنگ منظر میں کچھ بھروں گی لفظ اب رائیگاں نہ ہوں گے مرے ان سے پھر زخم دل سیوں گی میں

    مزید پڑھیے

    چلی جو پیا کی گلی دھیرے دھیرے

    چلی جو پیا کی گلی دھیرے دھیرے مری آنکھ کیوں نم ہوئی دھیرے دھیرے ابھرتا گیا مجھ میں وہ لمحہ لمحہ میں تحلیل ہوتی گئی دھیرے دھیرے نہ بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے میں پاؤں پہ چلتی رہی دھیرے دھیرے دوپہریں مکانوں میں پھیلی ہوئی ہیں میں سائے سی بڑھتی ہوئی دھیرے دھیرے مرا ضبط بڑھتا ...

    مزید پڑھیے

    رنگ لے کر نیا اداسی کا

    رنگ لے کر نیا اداسی کا کوئی منظر بنا اداسی کا پھر کوئی داستان چھیڑی گئی پھر بنا دائرہ اداسی کا میری آنکھوں میں رقص ویرانی دیکھ کر دل پھٹا اداسی کا میں نے کمرے میں جس طرف دیکھا نقش بنتا گیا اداسی کا مشتمل ہے ہزار صدیوں پر پل وہ ٹھہرا ہوا اداسی کا شیروانی خرید لی اس نے میں نے ...

    مزید پڑھیے

    ہمارے دل کا نہ در کھٹکھٹا پریشانی

    ہمارے دل کا نہ در کھٹکھٹا پریشانی ہزار غم ہیں یہاں لوٹ جا پریشانی میں اپنے آپ سے الجھی ہوئی ہوں مدت سے مزید آ کے نہ الجھن بڑھا پریشانی کسی بھی طور نہ خاطر میں لاؤں گی تجھ کو مجھے نہ اپنے یہ تیور دکھا پریشانی میں اپنا درد سنا آئی ہوں درختوں کو مجھی کو کیوں رہے لاحق سدا ...

    مزید پڑھیے

    گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی

    گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی پیڑ پر ٹہنیاں نہیں ہوں گی غم سے سمجھوتا کر لیا دل نے اب یہاں سسکیاں نہیں ہوں میں کہ دور جدید کی لڑکی پاؤں میں بیڑیاں نہیں ہوں گی واپسی کا ہے سوچنا بے سود اب جلی کشتیاں نہیں ہوں گی اب دیوں کو بچانا واجب ہے آندھیاں مہرباں نہیں ہوں گی بارشوں کے سفر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2