چلی جو پیا کی گلی دھیرے دھیرے
چلی جو پیا کی گلی دھیرے دھیرے
مری آنکھ کیوں نم ہوئی دھیرے دھیرے
ابھرتا گیا مجھ میں وہ لمحہ لمحہ
میں تحلیل ہوتی گئی دھیرے دھیرے
نہ بیساکھیوں کا سہارا لیا ہے
میں پاؤں پہ چلتی رہی دھیرے دھیرے
دوپہریں مکانوں میں پھیلی ہوئی ہیں
میں سائے سی بڑھتی ہوئی دھیرے دھیرے
مرا ضبط بڑھتا چلا جا رہا ہے
میں پرچھائیں ماں کی بنی دھیرے دھیرے
تری یاد بھی جیسے آری ہے کوئی
مرے دل پہ چلتی ہوئی دھیرے دھیرے
ہوائے زمانہ مخالف تھی لیکن
میں پرواز کرتی رہی دھیرے دھیرے