Bekhud Mohani

بیخود موہانی

ممتاز شاعر، مصنف اور شارح۔ غالب کے کلام کی شرح کے لیے مشہور۔ ’گنجینۂ تحقیق‘ کے نام سے شاعری پر تنقیدی مضامین کی کتاب بھی شائع ہوئی

Prominent poet and writer, well-known for his annotations of Mirza Ghalib, also published a critical book on poetry called Ganjina-e-Tahqeeq

بیخود موہانی کی غزل

    اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں

    اجل نے کر دیا خاموش تو کیا ہے زباں ہوں میں کہ ہستی کا فسانہ ہوں عدم کی داستاں ہوں میں زمیں والے جو کہتے ہیں کہ اب کیا پیس ڈالے گا تو ملتا ہے جواب اس کا کہ دور آسماں ہوں میں میں سمجھاتا ہوں جب دل کو تو کہتا ہے متانت سے زمانے کی زباں تو ہے حقیقت کی زباں ہوں میں مری تصویر میرا بت مرا ...

    مزید پڑھیے

    ابھی چمن ابھی گل بس یہی سماں دیکھا

    ابھی چمن ابھی گل بس یہی سماں دیکھا قفس کو بھی مری آنکھوں نے آشیاں دیکھا قفس کو دیکھ کے جب سوئے آشیاں دیکھا زمیں سے چرخ تک اٹھتا ہوا دھواں دیکھا جو کہہ کے لفظ وفا چپ رہا تو وہ بولے کہاں سے چھوڑ دی ظالم نے داستاں دیکھا تڑپ کے آپ ہی باہر تھا آپ پردے کے نگاہ یاس سے یوں سوئے پاسباں ...

    مزید پڑھیے

    اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں

    اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں یعنی مجھے امید کا بھی آسرا نہیں کب ہم سے بے دلوں پہ نگاہ جفا نہیں ہم خوب جانتے ہیں کہ تو بے وفا نہیں اے رشک پردہ سوز شکایت کی جا نہیں وہ بزم ناز ہے دل بے مدعا نہیں دکھلائے پھر خدا نہ وہ مایوسیوں کے دن ہوتا تھا یہ خیال کہ ہے یا خدا نہیں اللہ رے بے ...

    مزید پڑھیے

    جگر کو دیکھ کے زخم جگر کو دیکھتے ہیں

    جگر کو دیکھ کے زخم جگر کو دیکھتے ہیں مرے عزیز مرے چارہ گر کو دیکھتے ہیں پڑی ہے سامنے جیسے کسی عزیز کی لاش ہم اس نظر سے دل بے خبر کو دیکھتے ہیں کٹیں گی موت کے ہاتھوں یہ بیڑیاں اک دن اس ایک آس کو اور عمر بھر کو دیکھتے ہیں گزر رہی ہے اسیران بدنصیب کی یوں کبھی قفس کو کبھی بال و پر کو ...

    مزید پڑھیے

    جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس

    جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس اٹھے آخر تک بگولے آہ اس محمل کے پاس ہیں جگر میں تیرے ناوک کی قسم گنتی کے زخم نام کو رستے ہوئے ناسور ہیں کچھ دل کے پاس ایک منزل روح کو تا مرگ ہے ہر ایک سانس یہ مسافر دور منزل سے ہے اور منزل کے پاس موج خون کشتگاں ہے وحشت آموز خیال دل لرزتا ہے ...

    مزید پڑھیے

    میں نقش ما و من ہوتا کہ نقش ماسوا ہوتا

    میں نقش ما و من ہوتا کہ نقش ماسوا ہوتا جو پہلے سے خبر ہوتی کہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا مری ہستی کا نقطہ گر نہ نقش ماسوا ہوتا ازل کی ابتدا ہوتا ابد کی انتہا ہوتا سمجھ لے راہ الفت میں کچھ ایسی ہی پڑی ورنہ نہ دل مجھ سے جدا ہوتا نہ میں دل سے جدا ہوتا بنی جو کچھ بنی ہم پر مگر پھر بھی یہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3