جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس

جوش وحشت میں نظر پہنچی نہ اپنے دل کے پاس
اٹھے آخر تک بگولے آہ اس محمل کے پاس


ہیں جگر میں تیرے ناوک کی قسم گنتی کے زخم
نام کو رستے ہوئے ناسور ہیں کچھ دل کے پاس


ایک منزل روح کو تا مرگ ہے ہر ایک سانس
یہ مسافر دور منزل سے ہے اور منزل کے پاس


موج خون کشتگاں ہے وحشت آموز خیال
دل لرزتا ہے کہ خنجر ہے ابھی قاتل کے پاس


مست دنیا مضطرب تھے شاد تھے اہل نیاز
جب بھنور سے بچ کے ڈوبیں کشتیاں ساحل کے پاس


بے نیازی اپنی سی دے ڈال پورا کر سوال
ورنہ ہے تیرا دیا سب کچھ ترے سائل کے پاس