یوں کھل گیا ہے راز شکست طلب کبھی
یوں کھل گیا ہے راز شکست طلب کبھی آنکھوں سے بہہ گیا ہے لہو بے سبب کبھی ویرانیوں نے تھام لیا دامن حیات ہم لوگ بھی تھے خندۂ بزم طرب کبھی جو لوگ آج زینت خواب و خیال ہیں رہتے تھے ساتھ ساتھ مرے روز و شب کبھی آوارہ آج صورت برگ خزاں ملے ملتی تھی جن سے باد صبا با ادب کبھی ایک ایک سمت جن ...