تعاقب
کیسی تاریک فضا کیسا بھیانک منظر
ہر طرف چھایا ہوا شہر خموشاں کا سکوت
اور تا حد نظر رات کے سانپوں کے ابھرتے ہوئے سر
ہر طرف رقص میں گزرے ہوئے لمحات کی نازک پریاں
اژدہا وقت کا منہ کھولے ہوئے
حال کے زہر سے ماضی کے پری خانے کو آغوش فنا میں دیتے
ہر طرف چشم شرر بار سے تخیل کی تجسیم کو جھلساتا ہوا
اپنی پھنکار سے برسوں کے درختوں کو نگوں کرتا ہوا
ہر طرف ایک فسوں کرتا ہوا
جانے کس سمت سے آیا ہے کدھر جائے گا
اور گم گشتہ منزل کی
ایک انجان بھٹکتی ہوئی روح
اس اندھیرے میں خموشی میں سراسیمہ خرام
مضطرب دست بہ دل خاک بسر
جانے کس سمت چلی جاتی ہے
کون ہے
کون بھٹکتی ہوئی روح
کس طرف گرم سفر نالہ کناں شعلہ بجاں
کس طرف کس کے تعاقب میں چلی جاتی ہے